اسلام آ باد ( نوائے وقت رپورٹ) پاکستان 67 بلین روپے مالیت کا ریشم درآمد کر رہا ہے، اگر ہم اپنے ملک میں زیادہ ریشم پیدا کریں تو اس سے چھ لاکھ افراد کو روزگار ملے گا، جن میں سے زیادہ تر دیہی خواتین کی ہوں گی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر، سیریکلچر پنجاب ،محکمہ جنگلات لاہور محمد فاروق بھٹی نے چائنہ اکنامک نیٹ کو انٹرویو میں بتا یا کہ لیکن شہتوت کے درختوں کی کمی پاکستان کو اپنی صلاحیت کو مکمل طور پر استعمال کرنے سے روک رہی ہے۔ محمد فاروق بھٹی نے کہا 1990 کی دہائی میں شہتوت کے درختوں کا رقبہ سکڑ گیا، جس کی وجہ سے ریشم کی صنعت کا زوال ہوا، اب ہم اسے واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شہتوت پاکستان کے مقبول ترین پھلوں میں سے ایک ہے۔ شہتوت کے درخت، تیزی سے بڑھنے والے اور چھوٹے سے درمیانے درجے کے، پاکستان کے دیہی علاقوں میں کاشت کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں وسیع موجودگی کے علاوہ، یہ کے پی کے، ایبٹ آباد اور جی بی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ گرم آب و ہوا کی بدولت پاکستان میں شہتوت کے درختوں کی نشوونما کا دورانیہ تقریباً 10 ماہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کے پتے ایک سال کے اندر کئی بار کاٹے جا سکتے ہیں۔ ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ہارٹیکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل سائنسدان ملک محسن عباس نے سی ای این کو بتایا کہ میں کہوں گا کہ یہ ایک پھل دار درخت ہے جس کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا۔ اس کے پتوں کو ریشم کے کیڑوں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، جو ٹیکسٹائل کے شعبے کو ریشم فراہم کرتے ہیں۔ اس کی شاخیں مختلف قسم کی ٹوکریاں بنانے میں استعمال ہوتی ہیں جو پاکستان کے تقریباً ہر دیہی گھر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
چین تعاون پر زور
ماہرین کا شہتوت کے بیجوں میں پاک چین تعاون پر زور
Mar 18, 2022