پاکستان میں ٹیکس نظام بہتر، وصولی کے طریقہ پر کام کر نے کی ضرورت، ڈاکٹر شمشاد اختر


اسلام آباد(نا مہ نگار)سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ پاکستان میں میں ٹیکس نظام کے بہتر بنانے کے وصولی کے طریقہ پر کام کر نے کی ضرورت ہے ، پاکستان میں اس وقت 5.2ملین کے قریب چھوٹے کاروباری ادارے ہیں جو مناسب وسائل اور مہارت کے بغیر جرمانہ بھرنے پر مجبور ہیں،یہ بات کارانداز نے پاکستان میں بزنس ٹیکسیشن کی صورتحال -ایس ایم ایز کیلئے چیلنجزپر رپورٹ جاری کردی کارانداز پاکستان نے پاکستان میں بزنس ٹیکسیشن کی صورتحال - ایس ایم ایز کیلئے چیلنجزپررپورٹ جاری کرنے کیلئے ویب نار کا انعقاد کیا۔رپورٹ ٹیکس کمپلائنس کے دوران پاکستانی ایس ایم ایز کو درپیش رکاوٹوں، ملک میں ٹیکسوں کے نفاذ کیلئے ضابطوں کا تفصیلی جائزہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ تجاویز پیش کیا۔
 جس کے ذریعے مجاز حکام ٹیکس پالیسی کو سٹریم لائن کرنے کے علاوہ ٹیکس رجیم کو زیادہ بہتر بنانے کی غرض سے وصولی کے موثر طریقہ کار قائم کرسکیں۔ایس ایم ایز کو باقاعدگی کے ساتھ ملکی معشیت کی ریڑھ کی ہڈی ما نا جاتا ہے جس کا ملازمت میں 70فیصد سے زائد اور ملک کی درآمدات میں تقریبا25فیصد حصہ ہے۔البتہ پاکستانی ایس ایم ایز زیادہ تر رسمی معیشت سے باہر رہتے ہے۔ پاکستان کی غیر دستاویزی یا شیڈومعیشت کا اندازہ ملک کی سرکاری مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی کا 35فیصد سے 56فیصد کے درمیان ہے۔اس سے بھی زیادہ مضبوط اعشاریہ  ہمیں اس ڈیٹا سے ملتا ہے جو فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے دیا ہے جو پاکستان کے سپرٹیکس کی وصولی اور  انفورسمنٹ اتھارٹی ہے۔ اگرچہ کاروباری اداروں کی کوئی تازہ خانہ شماری نہیں کی گئی،پراکسی ڈیٹا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 5.2ملین کے قریب ایس ایم ایز موجود ہوسکتی ہیں۔ایف بی آر کے 2018کے فا ئلنگ ڈیٹا کے مطابق تقریبا64,000 ایسوسی ایشنز آف پرسنز(اے او پیز)نے گوشوارے جمع کرائے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بہت کم ایس ایم ایز ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔اس سروے کیلئے جن ایس ایم ایز کا انٹرویو لیا گیا انہوں نے حوالہ دیا کہ  ٹیکس ادائیگی یا اس سے منسلک ٹیکسوں کی بلند شرح سے زیادہ بڑی رکاوٹ انکے لئے  ٹیکس کی کمپلائنس کا بوجھ ہے۔ ٹیکس کی ادائیگی کی بروقت تعمیل کیلئے مناسب وسائل اور مہارت کے بغیر ایس ایم ایز جرمانہ بھرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔بہت سارے ترقی پذیر معیشتوں میں کمپلائنس کی لاگت گوشوارے جمع کرنے اور دستاویزی معیشت کا حصہ بننے کے فیصلے میں بڑی رکاوٹ ہے۔تحقیق کے دوران اکھٹے کئے گئے شواہد یہ تجویز کرتے ہیں کہ ٹیکس اتھارٹی کو محاصل پر مبنی پالیسی سے آگے بڑھتے ہوئے مربوط، اشتراکی اور آسان ٹیکس رجیم کی تشکیل کے مقصد کی طرف بڑھنا چاہئے جو سسٹم میں موجود تمام خرابیوں کو دور کرے گا۔ اس مقصد کیلئے رپورٹ میں متعدد تجویزات دی گئیں جن میں بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے پالیسی کی ہم آہنگی، ہینڈ ہولڈنگ کی مضبوطی اور ایس ایم ایز کو سہولیات فراہم کرنا ہے جس کو حکومتی مشینری میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن