پاکستان میں امام غزالی کے فکر انگیز نظریات کی واپسی۔

Mar 18, 2023

محمد نعیم قریشی


کہتے ہیں کہ انسانیت کو درپیش مسائل کو کم کرنے کے لئے جامعات علمی و تعلیمی کوششوں کے ذریعے اپنا واضح کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جامعات دنیا کے قدیم ترین سماجی اداروں میں سے ایک ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے شروع سے ہی ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بنا پر جامعات کئی مرتبہ بہترین قیادت ہونے کے باوجود سماجی و معاشرتی ترقی میں اپنا وہ کردار نبھانے کے قابل نہیں ہوتی جس کی کہ ان سے توقع کی جاتی رہی ہوتی ہیں۔ان تمام تر نامساعدحالات کے باوجود اب صورت حالات کافی حد تک بدل چکی ہے اور جامعات صحیح معنوں میں ایک سماجی ادارہ بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔جس کی مثال جامتعہ الرشید کے زیر انتظام قائم الغزالی یونیورسٹی سے دی جاسکتی ہے۔گزشتہ دنوں میرے ایک قریبی عزیز انور عادل صاحب کی جانب سے دعوت ملنے پر مجھے جامتعہ الرشید میں جانے کا شرف حاصل ہوا کراچی کے علاقے گلشن معمار میں وسیع و عریض رقبے پر قائم جامتعہ الرشید کا نام کس نے نہیں سن رکھا ہوگا،جس جامتعہ الرشید کا زکر میں کررہاہوں اس ادارے کی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہوچکاہے کہ جس کی بنا پر پاکستان میں پہلی بار ایک دینی مدرسے کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کی بازگشت سنائی دی گئی،جو کہ حیرت انگیز ہی نہیں بلکہ ناقابل یقین بھی ہے اس کا سہرا مفتی عبدالرحیم اور ان کی ٹیم کی انتھک محنتوں کے سر جاتاہے،یونیورسٹی کے چانسلرمفتی عبدالراحیم جبکہ وائس چانسلرڈاکٹرزیشان اور رجسٹراراحسن وقار کا زکرخیر ہے،معلومات کے مطابق یونیورسٹی کی فیکلٹی میں میں اس وقت 18پی ایچ ڈیز کو شامل کیا گیاہے جبکہ لائبریری میں اس وقت 4ہزارسے زائد کتب رکھی گئی ہیں،ملنے والی معلومات کے مطابق چارٹر انسپیکشن اینڈ ایولیوایشن کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر طارق رفیع ابتدائی یونیورسٹی کو چارکلیہ جات فیکلٹی آف اسلامک اسٹیڈیز فیکلٹی آف سوشل سائنسز،فیکلٹی آف ایجوکیشن اور فیکلٹی آف لا ئ کے لیے سفارش کی جائے گی،جس میں بی بی اے،ایم بی اے،بی ایڈ،ایم ایڈاور ایل ایل بی کی تعلیم دی جائے گی۔ہم نے یہ بھی دیکھاہے کہ پاکستان میں طالب علموں کی ذہانت کا اندازہ انکے حاصل کردہ نمبروں سے لگایا جاتا ہے، مگر پہلے سے ہی عقلنداور پڑھاکو بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والے ان تعلیمی اداروں کی کہانی بس
 اتنی سی ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی جامعہ موجود نہیں جو بین الاقوامی سطح پر 100 بہترین جامعات کی فہرست میں اپنا نام ومقام بنا سکے۔لیکن ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ جس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں مفتی عبدالرحیم نے جس ہستی کے نام پر اپنی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھاہے ان کا نام امام غزالی تھا۔حضرت امام غزالی کے عہد میں تعلیم عام تھی اس دور میں شاید ہی کوئی فرد ایسا تھا جو تعلیم سے بے پہرہ ہو،اس دور میں بہت سے نامور مسلم مفکرین کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا جبکہ حضرت امام غزالی کے عہد کا یہ عالم تھا کہ جہاں علم ودانش کی ندیاں بہتی تھی وہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت امام غزالی کے والد محترم ان پڑھ آدمی تھے حضرت امام غزالی کے والد محترم کوشاید اس بات کا بہت دکھ بھی تھا یہ ہی وجہ تھی کہ انہوں نے بستر مرگ پر اپنی ساری جمع پونجی اپنے ایک قریبی دوست کو دیتے ہوئے یہ تلقین کی کہ وہ میرے دو لڑکوں جن میں ایک امام غزالی بھی تھے کو اپنی نگرانی میں رکھتے ہوئے انہیں اعلیٰ تعلیم دلوائے۔دوست کو دی گئی جمع پونجی ختم ہوئی اور ایک تھکادینے والا سفر شروع ہوا، ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ میں یہاں لکھنا چاہونگا کہ جس نے امام غزالی صاحب کی زندگی کو بدل کررکھ دیاتھاامام صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی استاد احمد بن محمد ازکانی سے حاصل کی یوں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ جرجان کی طرف روانہ ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد جرجان سے وطن واپسی پرامام صاحب کے قافلے پر ڈاکوو¿ں نے حملہ کردیااور امام صاحب کا تمام سازوسامان چھین کر اپنے قبضے میں لے لیاجس میں امام صاحب کے ضروری کاغزات بھی شامل تھے۔اس موقع پر امام غزالی صاحب ڈاکو و¿ں کے سردار کے پاس گئے اور کہاکہ مجھے کم ازکم یہ کاغذات واپس کردیں جو کہ میرا کل سرمایہ ہے ان کاغذات میں وہ علم ہے جسے حاصل کرنے کے لیے میں نے جنگلوں کی خاک چھانی ہے اور ایک لمبا سفر کیا یہ سننا تھا کہ ڈاکوو¿ں کا سردار زور زور سے ہنسنے لگا اور طنزیہ انداز میں جواب دیاتو پھر تم نے کیا خاک سیکھا۔یعنی جب کاغذ ہی نہ رہے تو تم تو کورے ہی رہ گئے یہ کہتے ہوئے ڈاکونے انہیں کاغذات واپس کردیئے۔مگر ڈاکو کی بات کا امام صاحب پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ طوس پہنچ کر ان کاغذات پر جو لکھا تھا سب ضائع کرڈالا امام صاحب تین سال تک طوس میں رہے اور پڑھے ہوئے علوم کو ہی بار بار پڑھتے رہے۔ امام غزالی اپنے دور میں ایک بہت بڑے مفکر،فلسفی،ماہر فقہ و ماہر تعلیم تھے،آپ نے تعلیم میں نئے نظریات کو شامل کیاامام صاحب کے نزدیک تعلیم کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا نہیں تھا،جس کہ وجہ سے امام صاحب نے تعلیم کی اصلاح کی انہوں نے مذہبی اور غیر مذہبی مضامین میں تفریق کی انہوں نے ان تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔پہلا حصہ جو فرض عین کے نام سے مشہور ہوا جو کہ ہر مسلمان پر لازم ہے ا ور دوسرا حصہ فرض کفایہ کے نام سے مشہور ہے،اور بھی نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کی جو طلبائ اور اساتذہ دونوں ہی کے لیے کارآمد تھی۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دور جدید نے ان علوم کی جگہوں پر ماڈرن تعلیمات کاغلبہ ہوتاچلا گیا اور کئی صدیاں بیتنے کے بعد اس خلا کو کسی نے پر کرنے کی کوشش نہ کی،لیکن جامتہ الرشید کے سالانہ کانووکیشن میں الغزالی یونیورسٹی کی تقریب میں شرکت نے مجھے یہ لکھنے اور سوچنے پر مجبورکردیا کہ شاید اس گیپ کو مفتی عبدالرحیم صاحب نے ختم کرنے کا ارادہ کرلیاہے اور حضرت امام غزالی کی تعلیمات کی روشنی کے مطابق اسی نظام تعلیم کو نئی جہت کے ساتھ آگے بڑھانے کا فیصلہ کیاہے جو کہ وہ فرض عین اور اور فرض کفایہ کے نام سے چھوڑ کر گئے تھے۔اس غزالی یونیورسٹی کے تحت مفتی رحیم صاحب نے ہمیں موقع دیا کہ ہم دنیاوی اور دینی تعلیم کو ایک ساتھ سیکھ سکیں، عوام جدید دور میں داخل ہونے سے پہلے یہ باتیں زہن پر سوار کرچکی ہے کہ کالجز اور یونیورسٹیوں میں ہی طلباو¿ طالبات کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاتاہے انہیں یہاں وہ سب کچھ مل جاتاہے جو دنیا میں جینے کے لیے بہت ضروری ہے مگرہر وہ شخص جس نے مسلم گھرانے میں آنکھ کھولی اس کے والدین پر یہ پہلا فرض ہوتاہے کہ دنیا داری سکھانے سے قبل اسے دینی معاملات کی طرف بھی راغب کریں کان میں آزان دینے کے بعد ہم لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بچے کو مسلمان کرلیا اب بس سب ختم اور بھول گئے کہ حیٰ الفلاح کے معنی کیاہے یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ دور جدید میں داخل ہونے کے لیے مدارس کی تعلیم پر بھروسہ نہیں کرتے یا پھر طلبائ وطالبات کا دل ہی نہیں لگتا مذہبی معاملات کو پڑھنے اور سیکھنے کا من ہی نہیں کرتا۔اس کا ایک ہی طریقہ کار ہے کہ ایک طالب علم کو ایک ایسا ماحول دیا جائے کہ وہ ایک جگہ بیٹھ کر ان دونوں ہی تعلیمات کو سمجھ سکے اور یقینی طورپر جامعتہ الرشید کی اس پروقار تقریب میں ایک ایسا احساس ملا۔دل میں یہ امنگ جاگی کہ کاش میں زمانہ طالب علمی کا آغاز کسی ایسے ہی ادارے سے کرتاتو دین اور دنیا کی دولت سے مالا مال رہتا، فی الحال بس یہاں پر موجود فارغ التحصیل طالب علموں کو حسرت سے ہی دیکھا جاسکتاتھا جو پوری تقریب میں دیکھتا رہا۔

مزیدخبریں