1:صیہونی جنونیت اور بے کس فلسطین!!

Mar 18, 2023

کامران نسیم بٹالوی

2 : فلسطین ،اسرائیل تنازعہ اور مسلم امہ  کی بے حسی!!
تحریر:کامران نسیم بٹالوی
ؑ(عنوان کالم: نسیم سحر)

ماضی کے دریچوں میںہٹلر کی جانب سے یہودیوں کی نسل کشی کے بعد برطانوی راج اور امریکی سامراج کی جانب سے یہودیوں سے ہمدردی کے بدلے میں فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری  اور نئے ملک اسرائیل کا قیام درحقیقت انگریز بہادر کی جانب سے کوئی تلافی کا اہتمام نہیں تھابلکہ مستقبل میںمسلمانوں اور یہودیوں کی آپس میں مستقل بنیادوں پر الجھائے رکھنے کے ساتھ ساتھ اس شیطانی او رسازشی قوم کو یورپ سے دور رکھنے کی ایک کامیاب چال تھی اور آج اسرائیل خیمہ میں پناہ لینے والے اونٹ کی مثال کے مصداق  فلسطین پر بھر پور طریقہ سے قابض ہو چکا ہے جبکہ برائے نام بچ جانے والے  فلسطینی شہر اور علاقے اپنی نا اہل قیادت  کی بنا پر برائے نام ہی اپنی آزاد حثیت رکھتے ہیں جبکہ فلسطین کی پستی ، پسپائی اور ایک ناکام منظم ریاست کی ایک الگ اور کرب ناک داستان  ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے امت مسلمہ کے ممالک کے باہمی تعلقات اور اتحاد ویگانگت  میں یکسوئی اور دلچسپی کا نہ ہونے کے علاوہ مسلم ممالک  کی نمایئندہ تنظیم  او آئی سی کا لولہ لنگڑا پن ہے جو کشمیر ،فلسطین اور دیگر مظلوم مسلم شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی بجائے اغیار کے اقوام کے لئے زیادہ فکر مند نظر آتی ہے مقبوضہ فلسطین میں حالیہ دنوں  صہیونی فوج نے یہودی آباد کاروں سے ملکر  نہتے اور مظلوم فلسطینیوں پر بر بریت کا بازار گرم کر رکھا ہے مغربی کنارے کے تین افراد کو دہشت گردانہ الزام لگا کر  شہید کر دیا گیا ہے اسی طرح گذشتہ ایک ہفتہ کے اندر اندر غزہ میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد 17 تک پہنچ چکی ہے مسلمانوں کے خلاف قابض ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ کوئی نیا نہیں البتہ موجود حالات تب خراب ہوئے جب ’’ نبکہ ‘‘ کے موقع پر یہودی آباد کاروں نے مسلمان علاقوں میں گھس کر توڑ پھوڑ  اور غنڈہ گردی کی  ’’ نبکہ ‘‘ کا دن  فلسطینی مسلمانوں کو بے گھر کرنے اور ان کے معاشرہ کو تباہ کرنے کا  اسرائیل کے خلاف ایک  علامتی دن ہے جس روز1948میںیہودیوں کو فلسطین پر زبردستی قابض کروا دیا گیا تھا مسلمانوں پر انتہا پسندی کا ٹیگ لگانے والوں کی قوت بصارت،گوئائی اور سماعت اس وقت کام کرنا چھوڑ دیتی ہے جب وہ صیہونی ریاستی دہشت گردی کے دوران معصوم فلسطنیوں کا خون بہتے دیکھتے ہیں محتاظ اعداد و شمار کے مطابق  حالیہ ایک سال  میں88    معصوم فلسطینی  بچوں،عورتوں اور مردوں کو شہید کیا گیا  ویسے تو روز اول سے ہی اسرائیلی حکومت انتہا پسند یہودی      سیاسی  پارٹیوں کے زیر اثر رہی ہے لیکن موجودہ دنوں میں اسرائیل میں انتہائی دایئں بازو کی سیاسی جماعتLIKUD کی حکومت ہے جس کے چیرمین اور موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یا ہو ہے جسے اسلام دشمن انتہا پسندانہ پالسیوں 

کی وجہ سے جانا جا تا ہے اور جو مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا الجزیرہ اخبار میں شائع شدہ ایک آرٹیکل کے مطابق’’ اسرائیل  ایک فاشسٹ گیریژن میں تبدیل ہوتاجا رہا ہے‘‘ ویسے تو فلسطین میں امن کی تمام کوششیں اور معاہدے سطحی ہوتے ہیں اور اگر غلطی سے فلسطین اور اسرائیلی حکام کے مابین کوئی امن معاہدہ ہو بھی جاے  جو دکھلاوے سے کم نہیں ہوتا کو جنونی اور صیہونی آباد کاروں کو میدان میں اتار کر نا کام کر دیا جاتا ہے اس کی مثال دونوں  ممالک کے درمیان26 فروری 2023 کو ہونے والے امن معاہدہ کے اگلے روز ہی  یعنی27 فروری کو آرتھو ڈکس یہودی آباد کاروں  کی جانب سے پرامن اور نہتے فلسطنیوں پر حملے اور انکی املاک کا جلاو گھرائو  اور چڑھائی ہے جن میں درجن سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیںاخباری مضمون کے مطابق’’ اسرائیل فاشسٹوں اور جنونیوں نے جب سے اقتدار سنبھالاہے تب سے انہوں نے یہودی ریاست کو تھیوکریسی سے متصل مطلق العنان ریاست میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے جس پر اسرائیل کی سیکولر اور لبرل قوتیں بظاہر سڑکوں پر نکل آئیں ہیںلیکن اندرون خانہ یہ فلسطینی مسلم کشی صیہونی ایجنڈو اور پالسیوں کو دوام بخشنے اور مستقل کرنے کی مذموم سازش ہے جسے بنیاد پرست اصلاح کا نام دیا جانا چاہیے‘‘ حالیہ صیہونی دہشت گردی روکنے اور امن کے حوالے سے 19مارچ کو مصر کے شہر شرم الشٰیخ میں مصر ،اردن اور امریکی نمایئندگان کی موجودگی میںفلسطینی اور اسرائلی اتھارٹی شرکت کرے گی بین الا قوامی امور پر بات کرنے والے سیاسی  تجزیہ  نگاروں کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کوایسی بناوٹی میٹنگز میں شرکت نہیں کرنی چاہیے  جو اسرائلی ریاستی جبر و تششدد کو وقتی تو روکتی ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر کوئی پایئدار حل نہیں دتیں جہاں اسرائیلی کابینہ میں بیٹھا ایک وزیر فلسطینی دیہات کو  کیمایائی ہتھیاروں سے صفحہ ہستی  سے مٹانے کی دھمکی اور تجویز دے وہاں امن کی فاختایں اڑانا سوائے حماقت کے کچھ نہیں  المیہ اس بات کہ اس سارے حالیہ منظر نامہ میں ہمیں مسلم دنیا کی کوئی سرکردہ ریاست فلسطنییوں کے حقوق اور اسرائیلی  دہشت  گردی کے خلاف آواز بلند کرتی نظر نہیں آرہی  البتہ پاکستان کے علاوہ کچھ امیر ترین عرب ممالک  اور کچھ  غیر عرب ممالک اپنی ملکی معشیت کو سہارا دینے اورنئی کاروباری مفادات کی خاطر پس پردہ نت نئے ڈیلوں اور سمجھوتوں کی خاطر آنکھیں بند کر کیاسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھانے میں مصروف و مشغول ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں سوائے طفل  تسلیوں اور پالیسی بیانوں کے کچھ نہیں ۔اسرائیلی ریاستی فاشزم میں روز بروز دہشت گردی کی ورداتوں کا طریقہ بھی بدل رہا ہے اخباری رپورٹس کے مطابق بہت سے کم عمر اور نوجوان فلسطینوں جنہیں اسرائیلی فوج نے اٹھانے کے بعد غائب کرتے ہوئے مردہ قرار دے دیا تھا  وہ ہسپالوں میں  شدید زخمی حالت میں زندہ مل رہے ہیں جنہیں عمر بھر کر لئے  جسمانی اور ذہنی تشدد کر کے اپاہج بنا دیا گیا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ فلسطنیوں کا جذبہ حریت اسرائیل کی متشددانہ اور سفاکانہ کاروایئوں سے دبایا نہیں جا سکتا البتہ اس ضمن میں عالم اسلام کی روائتی بے حسی اور اپنے ممالک میں الجھی گتھیاں مظلوم  و محکوم  فلسطنیوں کی آزادی کی راہ میں ایک رکاوٹ سے کم نہیں  اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے جب تک فلسطین ایک منظم اور مکمل خود مختار ریاست  بن نہیں  جاتی تب تک بنیاد پرست یہودیوں کی  ناجائز آبادکاری تھم سکتی ہے اور نہ ہی معصوم فلسطنیوں کے شہادتوں کا سلسلہ رک سکتا ہے اس کے لئے لازم ہے مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کو ختم کر کے کوئی حقیقی
 ینظیم بنائی جائے یا اس تنظیم میں ہی نئی روح پھونکی جائے(ختم شدہ) 

مزیدخبریں