”چند پاکستانی سیاستدان، اپنی اپنی جورُو کے غلام !“


 معزز قارئین ! ۔ مَیں اپنے کالم میں کئی بار لکھ چکا ہُوں کہ ” نامور قانون دان اور سیاستدان ، پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی راہنما ، بیرسٹر اعتزاز احسن سے میرے قبل از مسیح سے تعلقات ہیں لیکن، اُن سے میری دو تین سو سال بعد ملاقات ہوتی ہے ۔ آج مجھے پھر اُن کے حوالے سے ” نوائے وقت “ میں شائع ہونے والا اپنا 9 اپریل 2013ءکا کالم یاد آ رہا ہے، جس کا عنوان تھا ” ہر کوئی ہے غلام جورُو کا!“۔ دراصل 7 اپریل 2013ءکو، سینیٹر چودھری اعتزاز احسن اپنی اہلیہ ۔ بیگم بشریٰ اعتزاز احسن صاحبہ کے کاغذات ِ نامزدگی جمع کرانے لاہور میں الیکشن کمیشن کے دفتر گئے تو، میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے اُنہوں نے کہا تھا کہ ”مَیں اپنی جورُو ( بیوی ) کا غلام ہُوں ، اِس لئے کہ ” مَیں اُس کے کاغذات ِ نامزدگی جمع کرانے آیا ہُوں !“۔
” کون ، کون جورُو کا غلام ! “ 
اپنی بات کو زیادہ مو¿ثر بنانے کے لئے بیرسٹر اعتزاز احسن صاحب نے کہا تھا کہ ” میری طرح ( اُن دِنوں ) صدر آصف علی زرداری اور عمران خان بھی اپنی اپنی جورُو کے غلام ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف اور مولانا فضل اُلرحمن بھی اپنی اپنی جورُو کے غلام ہیں اور انگلستان کے شاعر ، ادیب اور ڈرامہ نگار "William Shakespeare" ۔بھی اپنی جورُو کا غلام تھا۔ مَیں نے لکھا کہ ” بیرسٹر اعتزاز احسن صاحب جدّی پشتی سیاستدان ہیں لیکن، تعجب ہے کہ” اُنہوں نے اپنی کامیاب گھریلو وکالتی اور سیاسی زندگی کا راز بتانے میں اتنی دیر کیوں کردِی؟“۔ اگر موصوف اپنی سیاسی اور وکالتی زندگی کے آغاز میں ہی ، محترمہ بشریٰ سے شادی کے ایک سال بعد ہی اعلان کردیتے کہ ”مَیں جورُو کا غلام ہُوں“ تو، اُن کے بعد وکالت اور سیاست کرنے والوں کا بہت پہلے بھلا ہو چکا ہوتا؟“۔ 
”محترمہ بے نظیر بھٹو !“
صدر زرداری کی اہلیہ محترمہ بے نظیر بھٹو، اب اِس د±نیا میں نہیں ہیں اور ا±ن کے قتل کے 5 سال 3 ماہ اور کچھ دِن بعد، اعتزاز احسن، صدر صاحب کی گھریلو زندگی پر روشنی ڈال کر، ا±ن کی ترقی اور خوشحالی کی اصل وجہ بتا رہے ہیں۔ ممکن ہے صدر زرداری نے کبھی، نجی ملاقات میں، اعتزاز صاحب کو بتایا ہو کہ ”مَیں بھی آپ کی طرح جور±و کا غلام ہوں“ لیکن اب حالات بدل چ±کے ہیں اور صدر صاحب یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ ” اعتزاز احسن صاحب! مَیں نے تو، وہ بیان محض آپ سے اظہارِ یک جہتی کے لئے دِیا تھا وہ کوئی قرآن اور حدیث کی بات نہیں تھی۔“ 
”عمران خان ! “
مَیں نے لکھا کہ ” عمران خان تو، اب اپنی اہلیہ "Jemima Goldsmith"کو،2004ءکو طلاق دے چکے ہیں اب (9 اپریل 2013ءکو) تو اکیلے ہیں ، پھر اُن پر آج جورُو کا غلام ہونے کا الزام مناسب نہیں ہے ۔ معزز قارئین!۔ یہ الگ بات ہے کہ ” 31 اکتوبر 2014ءکو، عمران خان صاحب کی شادی ریحام خان سے ہُوئی ، پھر اُنہوں نے 30 اکتوبر 2015ءکو، اُسے طلاق دے دِی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ” جو، شخص باری باری اپنی دو جورُوﺅں کو، طلاق دے دے ، اُسے بھلا جورُو کا غلام کیسے کہا جاسکتا ہے؟“، پھر کیا ہُوا؟ 18 فروری 2018ئ، عمران خان صاحب کی تیسری شادی بشریٰ بی بی خان سے ہُوئی جو، ماشاءاللہ ابھی تک باقاعدہ ہے ۔ 
”میاں نواز شریف ! “
معزز قارئین !۔ جہاں تک ، لندن باسی میاں نواز شریف کا تعلق ہے ،9 اپریل 2013ءکو اُن کی اہلیہ¿ محترمہ (جورُو) بیگم کلثوم نواز صاحبہ حیات تھیں، وہ ، اُن دِنوں حیات تھیں ، قضائے الٰہی سے اُن کا انتقال 11 ستمبر 2018ءکو ، ہوگیا تھا ۔ اُس کے بعد میاں نواز شریف نے کوئی دوسری شادی نہیں کی؟۔ مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ” بعض معاملات میں بیرسٹر اعتزاز احسن ،میاں نواز شریف کے وکیل بھی رہے ہیں ، ممکن ہے کہ ” میاں صاحب نے اعتزاز احسن صاحب پر اعتماد کرتے ہُوئے بغیر پڑھے اپنے وکالت نامے پر دستخط کردئیے ہوں کہ ” مَیں اپنی اہلیہ محترمہ ( جورُو) کا غلام ہُوں۔ 
” مولانا فضل اُلرحمن ! “
مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ” جہاں تک مولانا فضل اُلرحمن صاحب کا معاملہ ہے ، اُن کے بزرگ ”ببانگ دہل “ (ڈھول کی آواز پر ) عورت کی سربراہی کی مخالفت کرتے رہے ہیں لیکن، اب مولانا کہہ سکتے ہیں کہ ’ ’ جنرل (ر) پرویز مشرف ڈھول ڈھمکّے کے قائل ہوں گے ؟۔ ہم نہیں !“۔ یقینا مولانا صاحب نے ”اجتہاد “ کِیا ہوگا ؟ کیوں کہ اُنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دونوں ادوار میں اُن کی سربراہی قبول کرلی تھی۔ اُس کے بعد مولانا نے گھر میں بھی اہلیہ محترمہ ( جورُو) کی سربراہی قبول کرلی ہو؟۔ ورنہ اعتزاز احسن اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے تھے کہ ” مولانا فضل اُلرحمن بھی جورُو کے غلام ہیں!“ ۔ معزز قارئین !۔ موجودہ حالات کے مطابق تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ” فی الحال مولانا فضل اُلرحمن صاحب کا وزیراعظم پاکستان منتخب ہونے کا کوئی چانس نہیں ہے ! “ ۔ 
 "William Shakespeare" 
مَیں نے لکھا تھا کہ ” برطانیہ سمیت یورپی معاشرے میں "Wife" (جورُو) کو ، "Better Half" (نصف بہتر) کہا جاتا ہے ۔ اِس لحاظ سے اگر ولیم شیکسپیئر اپنی جورُو کے غلام تھے تو اُنہیں کیوں موردِ الزام ٹھہرایا جائے !“ ۔ ایک اور بات کہ” ولیم شیکسپیئر کے دَور کی ملکہ¿ برطانیہ "Elizabeth I" ،کنواری ملکہ(Virgin Queen) کے طور پر مشہور تھیں ، برطانیہ کے عوام و خواص نے کسی بھی مرد کو، "Inferior Half" ( مردِ کہتر ) کے طور پر نہیں دیکھا ۔ 
”من آنم کہ من دانم!“
 معزز قارئین!۔ مَیں نے اپنے بارے بھی لکھا تھا کہ ” مَیں بیک وقت اپنی دونوں جورُوﺅں ،مرحومہ، اختر بانو اور مرحومہ نجمہ کوثر کا شوہر رہا ہُوں ۔وہ باری باری خُلد آشیانی یا جنت مکانی ہو گئی ہیں اِس لئے اب میرا یہ دعویٰ ہے کہ ” اب مَیں جورُو کا غلام نہیں ہُوں ! “ ۔ہمارے معاشرے میں عام طور پر مشہور ہے کہ ” 90 فی صد شادی شدہ مرد جورُو کے غلام ہوتے ہیں اور باقی 10 فی صد جھوٹ بولتے ہیں ۔ اِس وقت صورت یہ ہے کہ ” میاں شہباز شریف ماشاءاللہ اپنی دو جورُوﺅں کے شوہر ہونے کے باوجود وزارتِ عظمیٰ حاصل کر چکے ہیں،جو شخص دو جورُوﺅں کا شوہر ہو،اُسے جورُو کا غلام کیسے کہیں ؟۔بلاول بھٹو زرداری فی الحال غیر شادی شدہ ہیںاِس لئے اُن پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا!“

ای پیپر دی نیشن