موجودہ صورتحال پر صدر نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کیا ہے۔ فیصل واوڈا
صرف یہی نہیں یہ بھی بتایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے واضح کر دیا ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ سیاست جانے اور سیاست جانیں فیصل واوڈا تحریک انصاف کے دبنگ رہنماﺅں میں شامل تھے۔ مگر پارٹی کے کرتا دھرتاﺅں کی طرف سے ہر ایک سے چونچیں لڑانے کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے خان صاحب کو کئی مرتبہ آگاہ بھی کیا مگر انجام یہ نکلا کہ انہیں پارٹی چھوڑنا پڑی۔ ہمارے ہاں المیہ یہی ہے کہ جب عقل استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تب سب کی عقل ماﺅف ہو جاتی ہے۔ جوش جذبہ جنون زندگی کے لیے ضروری ہے مگر جہاں صبر تحمل و برداشت کی ضرورت ہو وہاں ان کا داخلہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اب صدر مملکت جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور وہ ابھی تک ان سے ہمدردی کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ وہ کوشاں ہیں کہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور دیگر مقتدر حلقوں کے ساتھ ان کے جماعت کی بات دوبارہ بن جائے مگر اب وہ گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا والی بات کسی دور دراز انجان راہوں میں کھو چکی ہے۔ الزامات، طنز و بدزبانی نے کئی پل مسمار کر دیئے ہیں۔ یہ دیکھے بغیر کہ
کرے نہ پل کوئی مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے
تو پھر اب وہاں سے بھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نہیں آ رہے جبکہ صدر کو تو چھوڑیں خود خان صاحب بھی بار کھل کر ان سب سے بات چیت اور ملاقات کا بڑی شدت سے بے چینی سے ناصرف انتظار کر رہے ہیں بلکہ دروازے پر نظریں جمائے رہتے ہیں کہ نجانے کب کوئی دستک ہو اور مڑدہ جانفزا سننے کو ملے۔ مگر انہوں نے جو بویا اب وہ کاٹ رہے ہیں اس لیے کہتے ہیں سب دروازے بند کریں مگر ایک کھڑکی ضرور کھلی رکھنی چاہیے............
پیسہ کہاں گیا سپریم کورٹ نے نیب سے اب تک کی ریکوری کی تفصیلات مانگ لیں
پیسہ کہاں گیا اس کا حساب تو کبھی کسی بیگم نے اپنے شوہر نامدار کو نہیں دیا تو بھلا نیب والے کسی کو کیا دیں گے۔ ویسے بھی جس طرح نیکی کر دریا میں ڈال والی بات سو فیصد درست ہے اسی طرح پیسہ کہاں گیا بھی والا سوال بھی درست ہونے کے باوجود جواب طلب ہے۔ اب نیب والے پہلے حساب کتاب دیکھیں گے کہ کہاں کہاں سے اور کس کس سے کتنا پیسہ وصول کیا۔ اس وصولی پر کتنا خرچہ آیا۔ دعوے تو نیب نے خوب کئے تھے کہ اربوں روپے حاصل ہوئے ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو اس وقت ملک کو ایک ایک پیسہ کی اشد ضرورت ہے۔ اگر یہ پیسہ ملکی خزانے میں جمع ہو جائے تو کم ازکم اس سے چند لمحے سانس سکون سے لینے کی مہلت مل سکے گی۔
نیب کی اولین ذمہ داری بھی یہی ہے کہ وہ سیاسی بیان بازی کی طرح نہیں حقیقت میں مگرمچھوں کے منہ میں ہاتھ ڈال کر پیٹ پھاڑ کر یہ رقم جو انہوں نے ہڑپ کی ہے نکلوائے۔ اس رقم کی اصل جگہ ان مگرمچھوں کا پیٹ نہیں قومی خزانے ہے۔ اب نیب جو تفصیلات دیتا ہے۔ اس میں نجانے کتنے شرفا کے نام آتے ہیں۔ جو سیاسی بھی ہیں اور غیر سیاسی بھی، تاجر بھی ہیں اور صنعتکار بھی، عالم بھی ہیں اور مافیاز بھی۔ دینے والوں کی تو کہانی سامنے آ رہی ہے مگر جو ابھی تک تمام تر دونمبری کا مال دبائے بیٹھے ہیں ان پر بھی نیب گرفت مضبوط کرے تو ہزاروں نئے مگرمچھ جال میں پھنس سکتے ہیں۔ اگرچہ ترامیم نے نیب کے پنجے کافی حد تک کاٹ دیئے ہیں مگر ایمانداری سے کام ہو تو اب بھی وہ شکار کی کھال ادھیڑ سکتے ہیں آزمائش شرط ہے۔
مودی بڑھکیں مارتے رہ گئے۔ پاکستان نے بھارت کو گھس کر مارا۔ کانگریس
بات تو کانگریس کے اس سکھ رہنما نے سچی کی ہے۔ مگر کیا کریں۔ اس وقت بھارت میں بی جے پی کی مودی سرکار کسی سچ کو سننے کی تاب نہیں رکھتی۔ مودی کا کام ہی یہی رہ گیا کہ وہ ہندو توا کی منفی سیاست کر کے ملک کے کونے کونے میں نفرت کی آگ بھڑکاتے پھر رہے ہیں۔ ان کی آگ اگلتی زبان کا نشانہ صرف اور صرف مسلمان ہوتے ہیں۔ مودی کی بات چھوڑیں بی جے پی کے وہ رہنما جنہیں ابھی تک دھوتی باندھنا نہیں آتی وہ بھی گزگز بھر لمبی زبانیں نکالے مسلمانوں کے خلاف اسلامی شعائر کے خلاف تقریریں کرتے پھرتے ہیں۔ شاید وہ سب بھول گئے ہیں
اے آب رود گنگا، وہ دن میں یاد تجھکو؟
اترا تیرے کنارے جب کارواں ہمارا
اور پھر ہزار سال یہاں مسلم حکمرانوں کی حکومت رہی۔ مگر انہوں نے رواداری قائم رکھی۔ اگر وہ بھی انتہا پسند ہوتے تو آج پورے بھارت میں ایک بھی غیر مسلم نہیں ملتا۔ آج بی جے پی یہی چاہتی ہے کہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کر کے یا دوبارہ ہندو بنا کر بھارت کو ہندو ریاست بنا دے۔مگر ایسا نہ پہلے ممکن تھا نہ اب ہے نہ آئندہ ہو گا۔ کانگریسی رہنما نے درست کیا جو مودی کو یاد دلایا کہ وہ اندر گھس کر مارنے کی بڑھکیں مارتے رہ گئے اور پاکستان نے اندر گھس کر بھارت کو تارے دکھا دئیے۔ شکر کریں ابھی نندن کو واپس کر دیا ورنہ گھسنے کی کوشش میں جان بچانے والا ابھی تک قید میں مودی کی جان کو رو رہا ہوتا۔ سکھ چاہے کانگریس میں ہوں یا کسی اور جماعت میں آج کل بھارت سرکار سے الجھے ہوئے ہیں مشرقی پنجاب میں سکھ نوجوان دہلی کی سکھ دشمن پالیسیوں کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں اور مودی سے لے کر امیت شاہ تک کو اس سے موت پڑی ہوئی ہے۔
کچے کے علاقے کے ڈاکو مزید 4 افراد کو اغوا کر کے لے گئے
حکومت اس علاقے کو جو حقیقت میں پنجاب اور سندھ کے درمیان علاقہ غیر بنا ہوا ہے ڈاکوﺅں سے پاک کرنے کے کاغذی منصوبے بناتی رہ گئی اور ڈاکو حسب سابق اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مسلسل حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ہر بار پولیس وہاں آپریشن کا دعویٰ کرتی ہے پیش قدمی کرتی ہے۔ مگر وہی ڈھاک کے تین پات والی بات۔ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ نہ حکومتی رٹ قائم ہوتی ہے نہ ڈاکو راج ختم ہوتا ہے۔ یہ کوئی سرحدی علاقہ نہیں کہ ہم کہیں کہ پڑوسی ممالک ان کی مدد کرتے ہیں۔ انہیں سرحد پار سے امداد اور اسلحہ ملتا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کے وسطی علاقے میں ہو رہا ہے۔ جہاں ڈاکو جب چاہیں جسے چاہیں اغوا کر لیتے ہیں بعدازاں بھاری تاوان لے کر اسے چھوڑتے ہیں۔ کئی لوگ تو دوران حراست ہی ان ڈاکوﺅں کے تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار دیتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ڈاکوﺅں نے 2 پولیس والوں کو بھی کچے میں قائم ان کی چوکی سے اغوا کر لیا تھا جنہیں دروغ برگردن راوی دو گرفتار شدہ ڈاکوﺅں کے بدلے میں رہا کیا گیا اسے ہم وٹہ سٹہ رہائی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی ایک ہاتھ دے دوسرے ہاتھ لے۔ ان خود سر ڈاکوﺅں کے پاس ان کی بنائی ویڈیوز میں دیکھ لیں راکٹ لانچر بھی ہیں اور بھاری مشین گنیں بھی ایک عدد شاید ائیر کرافٹ گن بھی ہو۔ شاید اسی خوف سے پولیس علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بجائے اپنی چوکیاں اور اپنی جانیں بچانے کی فکر میں زیادہ رہتی ہے۔ مگر کب تک ایسا چلتا رہے گا۔ ان جرائم پیشہ افراد کو بھی دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف فوجی ایکشن لیا جائے اور پورے علاقے میں بمباری کر کے ان کے سرپرستوں کو حقیقت میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ورنہ نجانے کب تک یہ کتنے لوگوں کو مارتے اور اغوا کرتے رہیں گے۔
ہفتہ، 25 شعبان المعظم، 1444ھ، 18 مارچ 2023ئ
Mar 18, 2023