حضرت براءن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ،عیدالاضحی کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اورارشادفرمایا: جو ہماری طرح نماز پڑھے اورہماری طرح قربانی دے اس کا یہ عمل ٹھیک ہے۔ اورجو نماز سے پہلے قربانی کردے اس کی قربانی نماز سے پہلے جانور ذبح کرناہے ، اس کی قربانی نہیں ہوئی۔ حضرت ابوبردہ بن دینار ، حضرت براءکے ماموں ، نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! میںنے نماز سے پہلے بکری ذبح کردی ہے۔ مجھے معلوم تھاکہ یہ دن کھانے پینے کا دن ہے اورمیںنے چاہا کہ میری بکری میرے گھر میں ذبح کی جانے والی پہلی بکری ہو، اس لیے میںنے بکری کو ذبح کردیا اورنماز کے لیے آنے سے پہلے صبح کاکھانا کھالیا۔ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایا: تو تمہاری یہ بکری وہ ہے جس کا تم نے گوشت کھالیا ہے اوربس۔(یعنی یہ قربانی نہیں )انہوںنے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ہمارے پاس بکر ی کا ایک بچہ ہے جس کی عمر سال سے کم ہے لیکن میرے نزدیک وہ دوبکریوں سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے ۔ کیا میری طرف سے اس کی قربانی کافی ہوگی؟ فرمایا: ہاں ، تمہاری طرف سے کافی ہے لیکن تمہارے بعد ایسی بکری کی قربانی کسی کے لیے جائز نہیں ہوگی۔(صحیح بخاری)
حضرت سالم بیان فرماتے ہیں ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے خاندان کے کمزور لوگوں کوپہلے بھیج دیتے تھے اوروہ مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس رات کو وقوف کرتے تھے اورجتنا چاہتے خدا کا ذکر کرتے تھے۔ پھر امام کے وقوف کرنے اوران کے روانہ ہونے سے پہلے لوٹ آتے تھے ۔ ان میں سے کچھ نماز فجر کے لیے منیٰ پہنچ جاتے تھے اورکچھ اس کے بعد آتے ۔ وہ جب منیٰ آتے تو جمرے کوکنکریاں مارتے تھے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: ان (ضعیفوں )کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے کی رخصت عطافرمائی ہے۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ایک آدمی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوااورعرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھ سے روزہ توڑنے کا قصور سرزد ہوگیاہے۔آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس اتنا مال ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو؟ اس نے عرض کیا: نہیں ۔ آپ نے پوچھا : کیا دوماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا : نہیں ۔ آپ نے پوچھا : کیا ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلاسکتے ہو؟ اس نے عرض کیا : نہیں ۔ پھرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ٹوکرایعنی زنبیل پیش کی گئی جس میں کھجوریں تھیں۔ آپ نے اس سے فرمایا: اپنی طرف سے (روزہ توڑنے کے کفارہ کے طورپر)یہ کھجوریں لوگوں کو کھلادو۔اس نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)!کیا ان لوگوں کو یہ کھجوریں کھلاﺅں جو ہم سے زیادہ حاجت مندہیں جب کہ اس شہر کی دونوں اطراف کے درمیان کوئی کنبہ ہم سے زیادہ حاجت مندنہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: پھر تم یہ کھجوریں اپنے ہی اہل خانہ کو کھلادو(تمہاراکفارا اداہوجائے گا)۔(صحیح بخاری)