عزت مآب خطرے ناک کی تازہ ٹویٹ میں ارشاد کیا گیا ہے کہ میں ہر ایک سے ملنے اور مذاکرات کرنے کیلئے تیار ہوں۔ ان کی ٹویٹ پر ان کے نفس ناطقہ فواد چودھری نے یہ گرہ باندھی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف محض بیانات نہ دیں۔ مذاکرات کی تاریخ دیں۔ مل بیٹھ کر معاملات کا حل نکالنا چاہئے۔
ترجمہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے کہ خطرے ناک کی خطرے ناکی تحلیل ہو رہی ہے۔ پہلے ان کا فرمان مستقل کچھ یوں تھا کہ مر جا¶ں گا‘ چوروں اور ڈاکو¶ں سے مذاکرات نہیں کروں گا یہ ممکن ہی نہیں کہ ان چوروں ڈاکو¶ں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھوں۔ اب ہر ایک سے بات کی بات کا فرمان امروز آ گیا اور ظاہر ہے کہ ”ہر ایک“ میں چور ڈاکو بھی شامل ہیں بلکہ سچ پوچھئے تو ہر ایک سے مراد صرف چور اور ڈاکو ہی ہیں۔ سپہ سالار کی طرف سے تو مذاکرات کی خواہش کا جواب بار بار آ چکا ہے اور یہ وہی جواب ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اچھا تو آپ کی طرف سے جواب ہی سمجھیں۔ لیکن ایوان صدر میں مقیم خطرے ناک کے نمائندہ خصوصی پھر بھی نہ سمجھے اور ایک میڈیا ہا¶س کی خبر ہے جس کی تصدیق فیصل واوڈا صاحب نے بھی کی ہے کہ دو روز قبل نمائندہ خصوصی کی طرف سے پھر ملاقات کا شرف بخشنے کی استدعا کی اور وہاں سے وہی جواب آیا یعنی جو اب ہو گیا۔ اس بار قدرے سختی سے۔
ہر ایک سے بات کیلئے تیار ہوں اور وزیراعظم تاریخ بتائیں کا انداز پیشکش کا نہیں ہے‘ درخواست اور التجا کی ہے۔
جو دھمکی تھی کل‘ التجا ہو گئی
خطرناکی ساری ہوا ہو گئی
ادھر بہت ساروں کا خیال ہے کہ یہ جو کہا تھا کہ میں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد زیادہ خطرناک ہو جا¶ں گا‘ وہ سچ ہی کہا تھا اور وہ واقعی خطرے ناک ہو گئے ہیں۔
یہ خیال صورتحال پر سرسری سے بھی کم نظر ڈالنے کا نتیجہ نکلتا ہے۔ پھر سے غور فرمایئے۔ وہ خطرہ ناک نہیں ہوئے‘ محض گڑ بڑے ناک ہوئے ہیں اور ان کی یہ گڑ بڑے ناکی بھی محدود دائرے میں ہے۔ ایک عمارت میں محصور ہو کر‘ خواتین اور بچوں‘ بزرگوں کو ”سیسہ پلائی دیوار“ بنا کر کھڑے کر کے گرفتاری سے محفوظ ہونے کا تجربہ امریکہ میں کئی کر چکے ہیں۔ فلانا کلٹ‘ فلاناٹ ٹمپل‘ یا وہی ہو گا۔
عوامی طاقت سڑکوں پر نہیں آ سکی‘ محض اس سڑک پر آ جاتی ہے جہاں خطرے ناک بذات خود موجود ہوں‘ اس کے سوا جو بھی ہے ٹائیں ٹائیں فش سے زیادہ نہیں ہے۔ چلئے‘ ایک ٹائیں کا اضافہ اور فرما لیجئے یعنی ٹائیں‘ ٹائیں‘ ٹائیں فش۔ اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں نکل پا رہی ہے۔
زمان پارک میں محصور ہو کر‘ ہزار ڈیڑھ ہزار بندوں کا ہجوم اکٹھا کر کے بھی بات کتنے دن تک بنی رہ سکتی ہے۔ وہ تو دعائیں دیں کہ حکم آ گیا آپریشن روک دیا جائے اور بات بگڑتے بگڑتے پھر بن گئی ورنہ کتنے دن اور کا معاملہ تھا۔
خطرے ناک نے ایک نئی مصیبت اور مول لی۔ زیادہ تفصیل میں مت جایئے‘ اشاروں سے یہ بات سمجھ جایئے کہ یہ جو ٹی ٹی پی کے عناصر کی زمان پارک میں موجودگی کی بات ہو رہی ہے اور جس طرح کے نعروں‘ خطابات کی وڈیو اندر سے باہر آ کر سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں‘ اس کے ثمرات پوری پی ٹی آئی مل کر بھی سنبھال نہیں پائے گی۔ زمان پارک میں جو بھی بات منہ سے نکلتی ہے‘ اگلے ہی لمحے سوشل میڈیا کے ذریعے کوٹھوں پر جا چڑھتی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کو حیرت ہونی چاہئے کہ اعمال نامے کے صفحات کی گنتی آخر کہاں تک جائے گی۔
وہ خود فرما چکے‘ اب ہمارا آخری سہارا عدلیہ ہے‘ سبھی امیدیں اس سے ہیں۔ ایسی ہی صورت حال پر شاعر نے کسی کی ناامیدی کو دیکھا چاہیئے کی تجویز دی تھی۔
ایوان صدر میں تشریف فرما جناب خطرے ناک کے نمائندہ خصوصی نے زمان پارک پر ہونے والے (ناکام) گرفتاری آپریشن پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومت کا انتقامی طرز عمل قرار دیا۔
گرفتاری کے وارنٹ عدالت سے جاری کیئے‘ حکومت نے نہیں کئے۔ نمائندہ خصوصی عدالت کو حکومت سمجھ رہے ہیں یا حکومت کو عدالت قرار دے رہے ہیں۔ شاید اکتوبر کے بعد وہ کوئی خود نوشت لکھیں تو اس میں اس سوال کا جواب بھی مل جائے۔
گرفتاری کی صورتحال میں قبلہ خطرے ناک نے چھ رکنی کمیٹی قائم کی ہے جو حقیقی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھے گی۔ اعظم سواتی‘ مراد سعید‘ شاہ محمود قریشی وغیرہ شامل ہیں لیکن حیرت کی بات ہے‘ اس میں پارٹی کے ”صدر“ پرویز الٰہی کو شامل نہیں کیا۔
شاید انہیں الگ سے کہہ دیا گیا ہو کہ میاں آپ صدارت سنبھالو‘ پارٹی یہ سنبھالیں گے۔
خیر کوئی بات صدمے کی نہیں‘ چودھری صاحب دس برس پہلے صدر آصف زرداری کی حکومت میں ”نائب وزیراعظم“ ہوا کرتے تھے۔ نائب وزیراعظم صاحب کو اگلے دن کا اخبار پڑھ کر پتہ چلتا تھا کہ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کا کوئی اجلاس ہوا تھا جس میں یہ یہ فیصلے کئے گئے تھے۔
جیسے انہوں نے نائب وزیراعظم کے دن نبھائے‘ ویسے ہی پارٹی صدر کے دن بھی نبھا لیں گے۔ صبر اور حکمت والے آدمی ہیں۔
ایک بڑے ٹی وی کے پروگرام میں مہمان خصوصی شیخ رشید تھے‘ میزبان کوئی چودھری صاحب تھے جو خطرے ناک کے ”اصحاب خصوصی“ میں شمار کئے جاتے ہیں۔
شیخ رشید کی گفتگو جلا دو‘ گرا دو‘ مار دو‘ مر جا¶‘ آگ لگا دو‘ خون دیکھ رہا ہوں‘ خون کا انقلاب دیکھ رہا ہوں اور خانہ جنگی ہونے والی ہے کہ فقروں کا اعادہ در اعادہ اور تکرار در تکرار کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ چنانچہ انہوں نے اس ٹی وی شو میں بھی اپنی گفتگو کا آغاز اسی فقرے سے کہا کہ ”خانہ جنگی“ ہو گی۔ اس پر چوروں کو صرف یعنی میزبان کے منہ سے بے ساختہ کیا فقرہ نکلا؟ ملاحظہ فرمایئے۔ ”ہو گی“ کا لفظ ابھی شیخ جی کے منہ ہی میں تھا کہ چودھری موصوف نے کہا‘ انشاءاﷲ۔ اور اﷲ چاہے انشاءاﷲ اتنے زور سے کہا کہ شیخ جی کی بلندو بالا آواز بھی دب کر رہ گئی۔
اب اس ”انشاءاﷲ“ کی داد ماشاءاﷲ کہہ کر تو دی نہیں جا سکتی‘ بس انا ﷲ ہی کہا جا سکتا ہے۔ وڈیو کا کلپ سوشل میڈیا پر دستیاب ہے۔ دل کے ارمان کبھی بے ساختہ بھی لبوں پر آ جایا کرتے ہیں۔
ہوا ہو گئی
Mar 18, 2023