کتب بینی سے بچوں کی لرننگ عمدہ ہوتی ہے
ہم وہ باتیں اور حقائق بھول جاتے ہیں جن کو ہم نے یاد کرنے کے بعد دہرایا نہ ہو
ہمارا ذہن دو لاکھ کھرب سے زیادہ حروف یاد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
مقامات یاد رکھنے کے لیے ان جگہوں کا دماغی نقشہ بنایا جایا جانا چاہیئے
عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
انسانی ذہن پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق ہمارے ذہن کے پاس دو لاکھ کھرب سے زیادہ حروف یاد کرنے، 40 زبانوں پر عبور پانے، ایک پورا انسائیکلوپیڈیا یاد کرنے اور درجنوں یونیورسٹیوں سے گریجویشن کی ڈگریاں لینے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔
لیکن ہم بچوں کو عموما اس کشمکش میں دیکھتے ہیں کہ انھیں سکول کا سبق جلدی یاد نہیں ہوتا یا جلدی بھول جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میرے ساتھ بھی یہ مسئلہ رہا کہ جو سبق میں رٹہ لگاکر یاد کرتی تھی وہ جلد بھول بھی جاتی تھی، جبکہ مجھے یہ جان کر حیرت ہوتی تھی کہ وہ کونسے بچے ہیں جو ایک بار سبق پڑھیں تو انہیں وہ سبق ایسا ازبر ہو جاتا ہے کہ رٹہ لگانے کی نوبت نہیں آتی ۔ چونکہ میری والدہ ایک سکول ٹیچر تھیں لہذا انہیں میرے اس مسئلے کا حل معلوم تھا۔ ان کی تدابیر نے مجھ پر ایسا اثر کیا کہ میں رٹے کی محتاج نہ رہی ساتھ ہی ساتھ سبق بھولنے کی عادت سے جاں خلاصی ہوئی۔آج کئی سال بعد میری نظر سے جب یاداشت تیز کرنے سے متعلق ایک ماہر نفسیات کی تحریر گزری تو مجھے اپنی والدہ کی وہ تدابیر یاد آگئی جو انھوں نے مجھ پر آزمائی تھیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان کا ایسے تمام والدین کو علم ہونا چاہیے جواپنے بچوں کوبھولنے کی عادت سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔
علمی اورغیر افسانوی کتابیں معلومات حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں، لیکن جب بات آئے بچے کی یادداشت کو تیز کرنے کی تو اس کے لیے دلچسپ کہانیوں کی کتابیںبہت زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
فکشن یا افسانے سے متعلق کتابیں بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کی یادداشت کوبڑھانے میں ایک ٹانک کا سا کام کر سکتی ہیں۔ دلچسپ ناول اور افسانے یادداشت کے نقطہ نظر سے بہت کارآمد ہیں۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کتابوں کو صرف نصاب تک محدود کر دیا ہے۔ فارغ اوقات میں بچے پلے سٹیشن پر گیمز کھیل کر وقت گزارتے ہیں۔پرانے وقتوں میں جب کتب بینی عام تھی اور ٹیکنالوجی گھر گھر میسر نہ تھی تو بچے کھیل کود کے علاوہ فارغ اوقات میں کہانی کی کتابیں شوق سے پڑھتے تھے۔ اس کے کئی مثبت اثرات یاداشت پر مرتب ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ بچے کی لرننگ اچھی ہو جاتی تھی دوسرا یہ کہ جب بچہ اپنی دلچسپی رکھنے والی کہانیاں پڑھتا تھا تو انہیں وہ اپنے ذہن میں تصور ایسے کرتاکہ ایک بار پڑھنے کے بعد اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہ رہتی۔ یوں بچے کو تدریسی مواد یاد کرنے میں بھی آسانی ہوتی تھی۔
سبق یاد رکھنے کا یہ ایک اور بنیادی اصول ہے جس میںتدریسی مواد کو خاکوں یا تصاویر کی صورت میں یاد رکھا جاتا ہے۔
’مثال کے طور پر اگر کسی کا آخری نام گرین اسٹون ہے تو ہم اپنی پسندیدہ جیولری میں لگے سبز پتھر ’زمرد‘ کو ذہن میں لا کر نام دہرا دیں تو وہ یاد رکھناآسان اور دلچسپ ہو گا اوربچہ جب بھی اس نام کو یاد کرنے کی کوشش کرے گا توآپ کو فوراََ اپنا ہار یا انگوٹی میں لگا زمرد یاد آئے گا اور اس سے آپ اسے کبھی نہیں بھول پائیں گے۔‘
یہ سادہ حکمت عملی بچے کے دماغ کو بغیر کسی پریشانی کے یاد رکھنے میں مدد دے گی۔
مقامات یاد رکھنے کی ایسی ہی ایک اور ترکیب کے مطابق ان جگہوں کا دماغی نقشہ بنایا جایا جانا چاہیئے جن سے ہماری واقفیت ہے جیسے کسی پارک کے پاس بچے کی پسندیدہ کھلونوں کی دکان۔
ہم وہ باتیں اور حقائق بھول جاتے ہیں جن کو ہم نے یاد کرنے کے بعد دہرایا نہ ہو۔ پیارے بچو!سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ 24 گھنٹے کے بعد ہمارا ذہن بہت تیزی سے بھولنا شروع کردیتا ہے۔ 24 گھنٹے کے اندر اندر 80 سے 100فیصد تک مواد ہمارے ذہن میں رہتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر آپ سبق کو دہرا لیں۔ آپ صرف چند منٹوں کی دہرائی سے سبق کو کئی دن تک یاد رکھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،لاہور