برملا (نصرت جاوید ) عطاء الحق قاسمی صاحب کے لکھے تقریباََ ہر دوسرے کالم میں مجھے کوئی ایسا نکتہ مل جاتا ہے جو ’’مزید‘‘ کا تقاضہ کرتا ہے۔کئی بار سوچا کہ ایسے چند نکات کو بنیاد بناکر بات آگے بڑھائوں۔ اپنے ارادہ کو عملی صورت دینے سے مگر گھبراتا ہوں۔
کالم نویسی کے حوالے سے قاسمی صاحب میری نسل کے قلم گھسیٹوں کے لئے استادوں کے استاد ہیں۔ ان کی اٹھائی بات کو آگے بڑھانے کے لئے زبان وبیان پر جو گرفت درکار ہے میں اس سے قطعاََ محروم ہوں۔ لاہور کے جس محلے میں پیدا ہوا وہاں پنجابی کے علاوہ کوئی اور زبان سننے اور بولنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا تھا۔مشن ہائی سکول رنگ محل میں داخل ہوا تو وہاں پانچویں جماعت تک انگریزی درست رکھنے پر ہی تمام تر توجہ مرکوز رہی۔اردو کا محض ایک پیریڈہوتا تھا۔اس کے دوران بھی زبان سمجھانے سے زیادہ لکھائی کو خوش خط رکھنے پر زیادہ زور دیا جاتا۔چھٹی سے آٹھویں جماعت کے درمیان فارسی بھی پڑھی جو ’’رفت، رفتند، رفتم، رفتیم…‘‘وغیرہ کے رٹے تک ہی محدود رہی۔’’مصدر‘‘ نام کی شے بھی وہاں سمجھائی گئی تھی جسے میں یاد نہیں رکھ پایا۔جو اردو لکھتا ہوں گھر میں آئے اخبارات کی وجہ سے سیکھی ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان لاہورجہاں سکول براڈ کاسٹ کے پروگراموں کے لئے بھیجا جاتاتھا۔مائیک پر کھڑے ہونے سے قبل ریہرسل کے دوران اگر کوئی لفظ غلط ادا ہوجاتاتو اسے درست کرنے کے لئے اسی لفظ کو بارہا دہرانے کی مشق سے گزرنا پڑتا۔گورنمٹ کالج لاہور میں بھی زبان سے زیادہ فلسفہ اور سیاسیات کو سمجھنے کی کوشش کی۔یادداشت اچھی ہونے کی وجہ سے شاندار نمبروں سے پاس ہونے کے باوجود سی ایس پی کے امتحان میں نہ بیٹھا۔ نجانے کیوں صحافی ہونے کو مچل گیا اور سکول میں سیکھی انگریزی کی وجہ سے اسلام آباد کے پہلے غیر سرکاری اخبار میں نوکری مل گئی جو آغا مرتضیٰ پویا نے نکالا تھا۔
’’دی مسلم‘‘ کے لئے سیاسی امور پر رپورٹنگ کرتا تو میرے سینئر اس میں ’’ادبی‘‘ رنگ آمیزی کا شکوہ کرتے۔ مشاہد حسین سیدنے مگر حوصلہ بڑھایا اور 1985میں غیر جماعتی بنیا دوں پر قومی اسمبلی بحال ہوئی تو میں اس کی کارروائی براہ راست رپورٹنگ کی بجائے ’’پریس گیلری‘‘ کی صورت قارئین کے روبرو لاتا رہا۔وہ کالم لکھنے کی وجہ سے عباس اطہر مرحوم نے ڈرادھمکاکر اردو کالم لکھنے کو بھی مجبور کیا۔ عموماََ یہ کالم سیاست ہی زیر بحث لانے تک محدود رہتا ہے۔قاسمی صاحب مگر اس ضمن میں کسی ایک سانچے تک محدود نہیں۔ زندگی کا شاید ہی کوئی پہلو ہوگا جو ان کی نگاہوں سے ا وجھل رہا اور وہ اسے اپنے مخصوص انداز میں ہمارے سامنے بیان نہیں کر پائے۔
چند روز قبل انہوں نے ایک کالم لکھا۔ یہ براہ راست نواز شریف سے مخاطب ہوا۔ میں اسے پڑھ کر حیران ہوگیا۔ مجھے گماں ہے کہ قاسمی صاحب جاتی امراء فون کرکے مسلم لیگ کے قائد سے ملاقات کی درخواست کرتے تو شاید ٹالانہ جاتا۔ وہ ملاقات ہوجاتی تو قاسمی صاحب نے ’’بول کے لب آزا د ہیں تیرے‘‘ سنائی دیتا جو پیغام میری ناقص رائے میں اپنے کالم میں قلم بند کیاتھا وہ لاہوری محاورے کے مطابق ’’کھل کھلا کر منہ درمنہ‘‘ بھی دیا جاسکتا تھا۔ قاسمی صاحب نے مگر اس راہ سے اجتناب برتا۔ میں ان کے گریز کے بارے میں سوچتا رہا۔ دو ہی نتائج نکال پایا۔ایک یہ کہ شاید قاسمی صاحب نوازشریف پر اپنی رائے تھوپنے کے لئے ملاقات کی خواہش سے وضع داری میں گریز اختیار کرگئے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ قاسمی صاحب نواز شریف کو یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ جس خواہش کا اظہار انہوں نے اپنے کالم میں کیا ہے وہ وطن عزیز کے تین بار وزیر اعظم رہے شخص کے بے شمار چاہنے والوں کی اجتماعی تمنا ہے۔
نواز شریف کا میں ان کی دونوں حکومتوں کے دوران ناقد رہا ہوں۔ان کی پہلی حکومت کے دوران تو کئی بار مجید نظامی مرحوم سے میرے ’’دی نیشن‘‘ میں لکھے کالموں کی وجہ سے نواز شریف نے بطور وزیر اعظم براہ راست ’’شکایت بھی لگائی‘‘۔ نظامی صاحب مگر یہ کہہ کر میری جان بچالیتے کہ ’’نصرت بھی آپ ہی کی طرح کا لاہوری ہے۔ ا س سے مل کر معاملہ نبٹالیجئے‘‘۔ معاملات ہم دونوں کے مابین مگر نبٹ نہیں پائے۔
نواز شریف کی دوسری حکومت آئی تو میں نے محتاط رویہ اختیار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔وزیر اعظم کے دفتر میں نوازشریف صاحب مگر ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ لوٹے تھے۔ اس ’’مینڈیٹ‘‘ نے انہیں ’’نظام شریعہ ‘‘ لاگو کر نے کو اکسایا۔’’مینڈیٹ‘‘ کے ذریعے ’’نظام اسلام‘‘ کا نفاذ میری سمجھ سے بالاتر تھا۔شکی ذ ہن کے ساتھ اپنے انگریزی کالموں میں بڑبڑانے کی حد تک دہرانا شروع ہوگیا کہ نواز شریف درحقیقت ’’نظام اسلام‘‘ کے بہانے اپنے لئے ’’امیر المومنین‘‘ جیسے اختیارات کے حاصل کرنے کی گیم لگارہے ہیں۔اس کے باوجود جب جنرل مشرف کے ہاتھوں کارگل ہوا تو میں منتخب وزیر اعظم کی پریشانی سراہنا شروع ہوگیا۔ میری جسارت ’’وہاں‘‘ پسند نہیں آئی۔اسی باعث جنرل مشرف کے نوسالہ دورِاقتدار میں را?ندہ دربار ہی رہا۔
12اکتوبر1999کے بعد سے یہ خواہش میرے دماغ میں اٹکی ہوئی ہے کہ نواز شریف صاحب بالآخر قوم کو بتا ہی دیں کہ کارگل کے ذریعے سری نگر پہنچ کر کشمیر آزاد کرنے کا منصوبہ کب اور کیسے تشکیل پایا تھا۔ 2013کے انتخابی نتائج آنے کے فوراََ بعد نواز شریف صاحب نے ٹی وی کیمروں کے روبرو یہ وعدہ کیا تھا کہ حلف اٹھاتے ہی وہ حمود الرحمن کمیشن کی طرز پر کارگل کہانی کے حقائق لوگوں کے روبرو لانے کی کوشش کریں گے۔ اس وعدے کو نبھانے مگر انہوں نے ایک قدم بھی نہ بڑھایا۔ جنرل مشرف کو گرفتار کیا بھی تو افتخار چودھری کے غضب سے گھبراکر۔ وہ ’’گرفتاری‘‘ بھی مگر وطن عزیز میں منتخب وزیر اعظم کی محدودات کو بے نقاب کرگئی۔ اس کے ساتھ ہی 2014میں نام نہاد ’’35پنکچروں‘‘ کے خلاف اسلام آباد میں عمران خان کا دھرنا شروع ہوگیا۔ مجھے گماں ہے کہ نواز شریف نے 2013کے انتخابی نتائج آنے کے چند ہی لمحے بعد کارگل کے بارے میں کمیشن بنانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ نبھادیا جاتا تو شاید نواز شریف کو اپنے تیسرے دور اقتدار میں ’’مودی کا یار‘‘ ہونے کے طعنے نہ ملتے۔نہ ہی انہیں ’’ڈان لیکس‘‘ کے ذریعے ’’وطن دشمن‘‘بناکر پیش کیا جاتا۔
میری دیرینہ اور شدید خواہش تھی کہ نواز شریف صاحب قوم کو کم از کم اتنا تو بتادیں کہ ایسی کونسی ’’مصیبت‘‘ آگئی تھی جس نے انہیں جنرل مشرف کو عین اس وقت آرمی چیف سے معزول کرنے کا فیصلہ کیا جب وہ ایک عام مسافربردار جہاز میں بیٹھ کر سری لنکا سے وطن لوٹ رہے تھے۔نواز شریف کے بطور وزیر اعظم تینوں ادوار میں بے شمار ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں سے ہر ایک بہت تحقیق کے بعد ضخیم کتاب کا باعث ہوسکتا ہے۔نواز شریف کی ان ادوار کے اہم ترین واقعات کے بارے میں خاموشی مگر حقائق سامنے آنے نہیں دیتی۔حقائق بیان نہ کرنے کی وجہ سے وہ ’’ووٹ کو عزت‘‘ بھی نہیں دلواسکے۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جیل سے طویل عرصے کے لئے لندن گئے تو بالآخر قمر جاوید باجوہ کو مزید طاقتور بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
عطاء الحق قاسمی بڑے ظرف والے انسان ہیں۔ میں وقت گزرنے کے ساتھ لیکن اپنا چھوٹا پن دریافت کرنا شروع ہوگیا ہوں۔نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کو چوتھی بار اقتدار ملاتو تحریک انصاف کی نقالی میں اس کے سوشل میڈیا مجاہدین اور ’’سہرے والیا مان جوانیاں‘‘ گانے والی ٹولیاں بھی فیس بک اور ٹویٹر پر نمایاں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ تحریک انصاف کی نقالی میں وہ ’’میرا وی کوئی دشمن ہوئے‘‘ پکارتے ہوئے مولا جٹ کے مصطفیٰ قریشی کی طرح خود کواذیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔چند پروگراموں میں میرے ادا کئے چند فقروں کی بنا پر ’’بھاگ لگے رہن‘‘ کی دعائیں مانگنے والی یہ ٹولیاں مجھے ’’مغرب کے بعد عقل سے محروم‘‘ ہوا ثابت کررہی ہیں۔میں بھی ’’آہو آہو‘‘ کہنے پر ڈٹا ہوا ہوں۔ نواز شریف اگر تاریخ درست رکھنے کی خاطر کوئی بیانیہ تشکیل دینا نہیں چاہ ر ہے تو میں انہیں ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ یاد نہیں دلا?ں گا۔ کاش میرا دل بھی عطاء الحق قاسمی صاحب کے دل کی طرح فکرمندی سے مضطرب ہونے کے قابل رہ گیا ہوتا۔