یہ شہر ہے وہ شہر کہ جس میں ہیں بے وجہ کامیاب چہرے۔۔یہاں سیاست کی آندھیوں نے مٹا دیے ماہتاب چہرے !آج ملکی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وطن عزیز کا سیاسی و ملکی نظام سوالیہ نشان بن چکا ہے اور یہ ہم نہیں کہہ رہے جو اس نظام کا حصہ ہیں وہی ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا بیانیہ داغ دیتے ہیں جونو منتخب نظام حکومت کو مشکوک کر دیتا ہے اور ایسے ہی بیانات کیوجہ سے عوام ہیجان میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے لیکن جنھوں نے حکومت بنالی ہے وہ بھی عجیب مخمصے کا شکار ہیں کہ کیا کریں اور جو بنا نہیں سکے انھیں بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے بس اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ ہے اور بے چراغ دیار جگ ہنسائی کا سامان بن چکا ہے۔
ہم ماضی سے سبق حاصل کیوں نہیں کرتے کہ 2018 میں بھی لکھ رہے تھے کہ بھان متی نے کنبہ جوڑا کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا کہ کون جیتے گا ، سیاستدانوں کی بدلتی وفاداریوں اور عہدوں کی بندر بانٹ سمیت ہر قسم کا ایکشن خلاف آئین تھا ، قوم تماشائی تھی جبکہ دور اندیش چیخ رہے تھے کہ اگر متنازع نتائج پر حکومت سازی کی گئی تو جلد انجام کو پہنچ جائیں گیعوام الناس کو باور کروایا جا رہا ہے کہ تجربہ کار افراد ملکی نظام سنبھال چکے ہیں اور اب راوی چین ہی چین لکھنے والا ہے۔ حالانکہ انھی تجربہ کاروں اور نا عاقبت اندیشوں نے ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ہمارا بال بال قرضے میں ڈوب چکا ہے ، حالات بد سے بدتر نہیں بدترین ہو چکے ہیں اور کوئی بہتری کی صورت بھی نظر نہیں آتی۔اس لئے نظام کا تو پتہ نہیں البتہ انجام وہی نظر آرہا ہے کیونکہ اس مرتبہ چہروں سے نقاب نہیں ہٹے بلکہ پردہ نشین خود نقاب پھاڑ رہے ہیں۔مسلم لیگی سینئر رہنما جاوید لطیف کے اعتراف نے تو تھرتھلی مچا دی ہے۔ انھوں نے ایک سیاسی پروگرام میں واضح موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ’’ یہ بات باعث شرمندگی ہے مگر سچ ہے کہ ہم کٹھ پتلی ہیں ‘‘پہلے شاہد خاقان عباسی سمیت پی ڈی ایم کے کئی سینئر رہنما ایسے بیانات دے چکے تھے لیکن قائدین کی طرف سے سخت ردعمل آتا تھا بلکہ اعلان لا تعلقی تک بات چلی جاتی تھی یقینااب کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا لیکن اگر یہی بات کوئی غریب صحافی یا عام آدمی کہے تو اسے ریاست مخالف بیانیہ سمجھا جاتا ہے۔قانون کا اشرافیہ کے لئے دوہرا معیار ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے اور ہر آنے والا کوشش کرتا ہے کہ ایسے کالے قوانین بنائے جو زنجیر عدل ہلائے اس کے نیچے آکر ہلاک ہو جائے اور ایسی سوچ رکھنے والوں کی حمایت میں درباری اور جانبدار صحافی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں اور ہر مرتبہ ایک نئے قانون کا اضافہ ہوجاتا ہے جس کی زد میں غریب آتا ہے جبکہ طاقتور ‘ طاقتوروں کو سر عام للکارتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کہتا بالفرض پابند سلاسل بھی ہوں تو قومی ہیرو بنا کر عوام کے سامنے پیش کر دیے جاتے ہیں۔ستم تو یہ ہے کہ کوئی نہیں سوچتاقومیں بموں سے نہیں نا انصافی سے تباہ و برباد ہوئیں۔
اس وقت بھی ملک جن بحرانوں سے دوچار ہے اس کی بنیادی وجہ بھی عدل و انصاف کی بروقت اور بلا تفریق فراہمی کا فقدان ہے کہ طاقتور کا جرم خواہ کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو اسے کسی نہ کسی طور سہولت مل جاتی ہے پھر وہ سر عام کسی کے جگر گوشے کا سینہ چھلنی کر دے ، منی لانڈرنگ کرے ،راہزنی کرے، عزتوں کو پامال کرے، پامال کرنے والوں کی پشت پناہی کرے ، سر عام غریب کا بچہ کچل دے ،ملک لوٹ کھائے بلکہ اس سے بھی زیادہ گھنائونے جرائم میں ملوث ہو بس دولت کا استعمال، چند پیشیاں اور وہ ثابت کر دے گا کہ عدل کا پیمانہ غلط جبکہ وہ سچا تھا اور جب ایسے افراد کو سزا نہیں ملتی تو وہ پوری قوم پر تقسیم ہو جاتی ہے۔یہ سزا نہیں تو کیا ہے کہ عوام بدحال ہیں مزید آئی ایم ایف شرائط کے نام پر سختیوں کی نوید بھی ہے لیکن حکمرانوں کا طرز حیات شاہوں کو مات دے رہا ہے بلکہ ایسے پروٹوکول اور القاب دیے جا رہے ہیں کہ شاہی خاندانوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا !ذراسوچیں ! اگر یہ سب کچھ مہذب دنیا میں ہوتا تو کیا ہوتا؟
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا کہ : ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ کسی رعایا کا حکمران بنا دے اور وہ اس حالت میں مرے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکہ دہی کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے‘‘ اور ہمارے ملک کا ہر حکمران اور کرتا دھرتا خود پر لگنے والے الزامات اور کار کردگی کا جواب دینے میں ناکام ہوچکا ہے بلکہ حلف اٹھاتے وقت جو عہد کرتے ہیں اس کا حساب بھی نہیں دے سکتے مگر شعبدہ بازیاں یوں دکھا رہے ہیں جیسے دلوں میں اترجائیں گے۔۔کہتے ہیں کسی مصور کو بادشا ہ نے حکم دیا کہ دل کے دروازے کی تصویر بنائو تو اس نے بہت خوبصورت دل بنایا اور ساتھ دروازہ بھی بنا دیا مگر ہینڈل نہیں بنایا تو بادشاہ نے پوچھا کہ یہ کیسے کھلے گا؟ تو مصور نے کہا : بادشاہ سلامت ! دل کا دروازہ اندر سے کھلتا ہے باہر سے نہیں۔۔!تو عرض ہے کرسی سے تو اتر ہی جانا ہے اس لئے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کریں، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دعائیں لیں ،دو چار روز کے راشن کے نام پر بھیک دینے سے بہتر ہے کہ اشیائے خوردونوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کریں تاکہ ہر شخص ا پنی ضرورت کے مطابق خود خرید ے اور خوشی سے عید منا ئے کہ پورا سال جن کے نام پر قرضے اور امداد لی جاتی ہے انکا اتنا حق تو بنتا ہے۔۔