لوگ سوال کرتے ہیں کہ جو پیاز آج سے پندرہ دن پہلے ایک سو پچاس روپے کلو مل رہا تھا رمضان شروع ہوتے ہی ڈھائی تین سو روپے کلو کیسے بکنے لگا ہے۔اسی طرح سبزیوں، انڈوں، دالوں، گوشت ،پکوڑوں، سموسوں اورفروٹ کے دام راتوں رات کیسے بڑھ رہے ہیں ۔ رمضان مسلمانوں کے لیے فضیلت و برکت سے بھرا ہوا مہینہ ہوتا ہے، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اس مقدس مہینے میں لوگوں کو شدید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ اب کی بات نہیں بلکہ ہم نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ ہر سال رمضان کے بابرکت دنوں دکانوں، ریڑھیوں، ٹھیلوں اور گلی محلوں میں ہر ضر وری استعمال کی جنس کا نرخ بڑھ جاتا ہے ۔پاکستان میں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے ۔بحثیت مسلمان ہر کسی کا یہ عقیدہ ہے کہ رمضان میں عبادات کا ثواب کئی گنا زیادہ ملتا ہے اسی طرح یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس مہینے لوگوں کے لیے آسانیاں مہیا کرنے سے بھی خالق بہت راضی ہوتا ہے۔ کسی کا روزہ افطار کروانے والے کے لیے روزے کا ثواب بیان ہوا ہے ۔اسی لیے صاحب ثروت لوگ مسکینوں،غریبوں اور بے سہاروں کی بڑھ چڑھ کے مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بینک اسی مہینے صاحب نصاب کھاتہ داروں کی رقوم سے ذکواۃ کاٹ کے حکومت کے حوالے کرتے ہیں۔پھر حکومتیں اسی مہینے کی مناسبت سے شہریوں کے لیے طرح طرح کے رعایتی پیکج سامنے لاتی ہیں۔وزیر ، مشیر اور ضلعی انتظامیہ بازاروں، مارکیٹوں اور مالز میں قیمتیں چیک کرنے پہنچتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہر کوئی مہنگائی مہنگائی کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ چیزوں کے نرخوں میں اضافہ ہی ہوا جارہا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ کم آمدنی والے سفید پوشوں، مزدوروں ،شاعروں ،کالم نگاروں اور فنکاروں کے لیے حکومت کی طرف سے رمضان کے دنوں کوئی پیکج سامنے نہیں آیا ہے ۔یہ درست ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے بہت سے ملکوں کو مہنگائی نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔لیکن جن ملکوں میں حکومتی ادارے درست کام کررہے ہیں وہاں عوام کو معیاری چیزیں مناسب نرخوں پر مہیا کی جارہی ہیں ۔اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے51 ممالک پاکستان سے بھی غریب ہیں۔آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کردہ دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 52 واں نمبر ہے جب کہ بنگلہ دیش اور بھارت بلترتیب 62 اور 63 ویں نمبر پر ہیں۔
وزیر اعلی پنجاب صوبے میں بہتری کے لیے پر عزم ہیں تومہنگائی کنٹرول کرنے ،مسائل پر قابو پانے کے لیے اور وسائل بچانے کے لیے انہیں صوبے کی آبادی میں بے تحاشہ اضافے کو روکنے کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ’’نگہبان رمضان پیکج‘‘ پروگرام سے لاکھوں مستحق خاندانوں کو کم قیمتوں پر راشن مہیا کیا جا رہا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا حکم جاری ہوا ہے کہ رمضان میں کسی قسم کی ذخیرہ اندازی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔پر رمضان پیکج، زخیرہ اندوزی وغیرہ کے حوالے سے عوامی شکایات کے اندراج کیلئے ہیلپ لائن بھی قائم کردی گئی ہے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بھی غریبوں کے لیے سستی چیزیں مہیا کی جارہی ہیں۔اس بار ذکواۃ و خیرات کے مستحقین کے لیے تو یوٹیلٹی سٹورز پر چیزوں کے نرخ کم ہیںلیکن عام شہریوں کو وہاں سے بھی بازار کے حساب سے گھی،دالیں،چاول اور صابن وغیرہ مل رہا ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سب سے اہم کردار امام مسجد اور علما کرا م کا بنتا ہے۔بہت ضروری ہے کہ رمضان سے پہلے جمعہ کے بیانات میںلوگوں کو ذخیرہ اندوزی،منافع خوری اور ملاوٹ کی بجائے اسلامی روایات،اقدار اور تعلیمات کے مطابق کاروبار کرنے کی تلقین کی جائے۔اسکے بعد ضلعی انتظامیہ کا کام ہے کہ فوٹو سیشنز کی بجائے لوگوں کو سستی اور معیاری چیزیں مہیا کرنے کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور بہتر منصوبہ بندی سے کام کریں ۔سب سے اہم ذمہ داری پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ہے ۔جن کے قیام کا مقصد ہی قیمتوں پر نظر رکھنا ہے۔ مگرپاکستان میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی غفلت ، لاپروائی اور رشوت لینے کی وجہ سے دکانداروں سے لے کے ریڑھی والا ہر کوئی مرضی کی قیمت وصول کررہا ہوتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ قیمت کنٹرول کرنے والے اپنی ذمہ داری اور اس کے معاشرتی اثرات سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوںکے آفیسر مارکیٹوں سے ہفتہ یا دیہاڑی وصول کرتے ہیں اور انہیں من مرضی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں ۔انہیں نہیں معلوم ہوتا کہ جس دکاندار سے وہ ہزار روپیہ رشوت لے رہے ہیں وہ چیزیں مہنگی بیچ کے لوگوں سے لاکھوں روپے زیادہ وصول کرے گا ۔وہ یہ نقطہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی لالچ ،غفلت اور بے ایمانی کی وجہ سے عوام کو روزانہ کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔صحافی دوست کہتے ہیں کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ارکان اپنے ذاتی مفادات کیلئے ہی فعال ہوتے ہیں۔ ان کمیٹیوں کے لوگوں کا مقصد خدمت عوام نہیں بلکہ اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔حکومت اگر چاہتی ہے کہ ان کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے اثرات عام لوگو ں تک پہنچیں تو بہت ضروری ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے کا م کرنے کے طریقہ کار کو بہتر کیا جائے۔ضلعی انتظامیہ اپنے افسران پر کڑی نظر رکھے۔ سخت قوانین بنائے جائیں اور کوتاہی کے مرتکب ہونیوالوں کیخلاف انضباطی کارروائیاں کی جائیں تاکہ کسی کو لاپروائی پر سزا ملتی دیکھ کے باقی ملازمین اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے سرانجام دینے کی کوشش کرنے لگیں۔رمضان شروع ہوتے ہی کہا جاتا ہے کہ اگر عوام کچھ دن گوشت ،فروٹ اور بازاری سموسے پکوڑے نہ کھائے تو بہت سی چیزوں کی قیمتیں نیچے آ جائیں ۔یہ تو آنکھیں بند کرنے والی بات ہوگی۔ آنکھیں بند کرنے سے بھی کبھی مشکل وقت گزرتا ہے ۔ آج کل پاکستانی حکومت کے آئی ایم ایف کے وفد سے مذاکرات ہورہے ہیں۔ان مذاکرات کی کامیابی کی شکل میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ایسے میں یہ بہت ضروری ہے کہ قیمتیں کنٹرول کرنیوالے ملازمین اپنا کام پوری ایمانداری سے انجام دینے کی کوشش کریں۔