اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب یا اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ میں پاکستان کی دوسری قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔ پچھلی قرارداد کی طرح یہ قرارداد بھی پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے قرارداد پیش کی جس کے حق میں115 ووٹ پڑے۔ چین، امریکا اور روس نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ قرارداد کی مخالفت میں تو کوئی ووٹ نہیں پڑا البتہ بھارت اور اسرائیل سمیت 44 ارکان ووٹنگ کے عمل کے دوران غیر حاضر رہے۔ قرارداد میں اسلامو فوبیا کے تدارک کے لیے خصوصی ایلچی مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس قرارداد کو ’اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد کے لیے اقدامات‘ کا عنوان دیا گیا۔ اس قرارداد کا غالب اکثریت کی رائے سے منظور ہونا یقینا ایک خوش آئند بات ہے۔
قرارداد پیش کرنے کے موقع پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کردار ادا کرے۔ اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کا سب سے بڑا ثبوت اسرائیل کا فلسطین پر حملہ ہے۔ خصوصی ایلچی کی تعیناتی کا مقصد اسلامو فوبیا کے خلاف اقدامات شروع کرنا ہے۔ 2022ء میں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی طرف سے پچھلی قرارداد بھی منیر اکرم نے ہی پیش کی تھی جس کثرتِ رائے سے منظور کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا تھا کہ ہر سال 15 مارچ کو ’اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے بین الاقوامی دن‘ کے طور پر منایا جائے گا۔ اس وقت منیر اکرم نے اقوامِ متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلامو فوبیا ایک حقیقت ہے۔ اس کے مظاہر یعنی نفرت انگیز تقریر، امتیازی سلوک اور مسلمانوں کے خلاف تشدد ، دنیا کے کئی حصوں میں پھیل رہے ہیں۔ مسلم افراد اور کمیونٹیز کے خلاف امتیازی سلوک، دشمنی اور تشدد کی ایسی کارروائیاں ان کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور ان کے مذہب اور عقیدے کی آزادی کی خلاف ورزی ہیں۔
2022ء کی قرارداد کے تحت 15 مارچ کا دن اس لیے منتخب کیا گیا تھا کیونکہ 2019ء میں اسی روز نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر حملہ کر کے ایک دہشت گرد نے 51 مسلمانوں کو اس وقت شہید کردیا تھا جب وہ نمازِ جمعہ ادا کررہے تھے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں متعدد زخمی ہو گئے تھے جبکہ نیوزی لینڈ کے دورے پر موجود بنگلادیشی کرکٹ ٹیم اس حملے میں بال بال بچ گئی تھی۔ نیوزی لینڈ کی اس وقت کی وزیراعظم جیسینڈا آرڈرن نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پوری دنیا میں اسلاموفوبیا کے خلاف ایک بحث کا آغاز ہوا اور پاکستان کی طرف سے تین برس بعد جو قرارداد اقوامِ متحدہ میں پیش کی گئی وہ اسی بحث کا نقطہ عروج تھا۔ اس قرارداد کی منظوری کے نتیجے میں اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد کے لیے ایک دن کا بین الاقوامی سطح پر منایا جانا یقینا بہت اہم اقدام تھا۔
پچھلی قرارداد کے ضمن میں پیش کی گئی نئی قرارداد بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ صرف ایک دن منانے کی بات نہیں کرتی بلکہ اس سلسلے میں عملی اقدامات کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اس قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم کیا ہے۔ قرارداد کی منظوری کے موقع پر جنرل اسمبلی نے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، دشمنی اور تشدد پر اکسانے کی مذمت کی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو قرآن پاک کی بے حرمتی کے بڑھتے واقعات کے علاوہ مساجد اور مزارات پر حملوں کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں منفی تصورات، نفرت اور تشدد کے واقعات میں اسلامو فوبیا ظاہر ہوتا ہے۔ دفتر خارجہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری کے مطالبے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اسلامو فوبیا کی لعنت سے نمٹنے کے لیے اپنی نوعیت کی یہ پہلی تقرری ہو گی۔
نئی قرارداد کی منظوری کے لیے حکومت کی طرف سے کی گئی کوششوں کی تعریف تو بنتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ 15 مارچ کے دن کو پاکستان میں کس طرح منایا گیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس دن کسی خصوصی تقریب کا اہتمام نہیں کیا گیا جس سے اس بات کا اندازہ ہوتاہے کہ اس دن کو کتنی اہمیت کا حامل سمجھتی ہے۔ اس سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ حکومت نے شاید اس دن کو اس لیے نہیں منایا کیونکہ 2022ء میں جب اقوامِ متحدہ نے اس دن کی منظوری دی تھی اس وقت ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ ہماری سیاسی قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر معاملے میں اپنے سیاسی اختلافات سامنے رکھنا مناسب طرزِ عمل نہیں ہے۔ اسلاموفوبیا کے خلاف منایا جانے والا دن ہو یا کشمیر اور فلسطین کے بارے میں پاکستان کا موقف، یہ معاملات ریاست کے طے شدہ اور واضح موقف کے عکاس ہیں، لہٰذا ان سے متعلق بات کرتے ہوئے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا جانا چاہیے۔