روزے اور قرآن کی سفارش 

Mar 18, 2024

حکیم سید محمد محمود سہارنپوری

تحریر حکیم سید محمود احمد سروسہارنپوری
 عبداللہ بن عمر ٖؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گئے روزہ عرض کرے گا اے میرے پرودگار ۔میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور خواہشات نفس سے روکے رکھا تھا ۔ آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا میں نے راتوں کو سونے اور آرام کرنے سے روکا تھا خداوندا آج اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما چنانچہ روزے اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گئی (بہیقی )
آج کل رمضان المبارک کا مہینہ ہے اس مہینے اللہ تعالی کے خوش نصیب بندے روزے کی سعادت سے مشرف فرمائے گئے ہیں ۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ایمان کا اظہار بھی ہے اور ایمان کا ثبوت بھی اللہ تعالی نے اپنی کرم نوازی سے اپنے بندوں کے لیے جو نظام زندگی تجویز فرمایا ہے اس کا نام اسلام ہے اور تسلیم و رضا اس کا جوہر ہے ۔
بندہ جب اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اس کا معبود اللہ ہی ہے اور اللہ نے اپنی پسند اور نا پسند کا اظہار جس کے ذریعے فرمایا ہے وہ محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے جو شخص اسلام لا کر مومنین کی جماعت میں داخل ہوتا ہے اسلام اس کی تہذیب نفس کے لیے مختلف تر بیتیں بھی تجویز کرتا ہے اور معاملات میں حرام و حلال کی قیود عائد کرتا ہے اس کی اخلاقی تربیت کرکے اسے ایک مہذب شریف ، ہمدرد اور سب کے دکھ درد میں کام آنے والا فرد بناتا ہے اس کچھ اداب بندگی بھی سکھاتا ہے اور عبادات کا ایک مضبوط اور مستحکم نظام بھی دیتا ہے یہ نظام ہر وقت آدمی کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ وہ بندہ ہے اور اللہ تعالی کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دہ ہے ۔
یہ احساس ذمہ داری جہاں آدمی کو دنیا میں اچھا بنا دیتی ہے وہیں آخرت میں اسے نجات و مغفرت کی نوید بھی سناتا ہے ۔
 اسی نظام عبادت کا ایک جزو صوم یعنی روزہ ہے شریعت اسلامی میں روزہ ایک ایسی عبادت ہے جسے اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے مہینے میں ایک ماہ ک لیے اس طرح مقرر فرمایا ہے کہ ہر بالغ عاقل مسلمان مرد اور عورت سارا دن کھانے پینے اور خواہشات نفس سے اپنے آپ کو روکے رکھے ۔اوقات روزہ کا تعین اس طرح فرمایا گیا کہ روزے کا آغاز صبح صادق سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام غروب آفتاب پر ہے یعنی ان اوقات کے درمیان پانی بھوک پیاس اور نفس کی خواہش کو مکمل طور پر اللہ تعالی کی مرضی کے تابع کر دینا اور کھانے پینے کے حصول خواہش نفس کے سلسلے میں اس کے احکامات کی مکمل پاپندی کرنے کا نام روزہ ہے ۔
یہ دراصل ایک ایسا نظام زندگی ہے جو کہ فرمانبرداری کی تربیت بھی ہے اور اللہ تعالی کے موجود ہونے اور اس کے ہر جگہ نگران ہونے اور اس کی طرف بندے کی واپسی کا تصور کا یقین پیدا کرنے اور یقین کو آزمانے کی ایک کسوٹی بھی ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک شکر گزاری بھی ہے اس بات کی کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنی رضا حاصل کرنے کا راستہ دیکھایا اور اس پر چلنے کے لیے جملہ ہدایت بصورت قرآن عطافرمادی ۔
ان ہدایت کو سمجھنے کے لیے اور ان پر عمل کرنے کے لیے ایک نمونہ عمل رسول اللہ ﷺ کی صورت میں ہمارے لیے کرم نوازی سے معبوث فرمایا ہے اس مہینے میں ہم جس بات کی تربیت پاتے ہیں وہ یہی تو ہے کہ اللہ تعالی کے حکم سے ان چیزوں کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں جو عام دنوں میں ہمارے لیے بالکل حلال اور جائز تھیں ۔
لہذا جب رمضان آیا اور روزہ شروع ہو ا تو ہماری تربیت شروع ہوگئی اس مبارک مہینے میں ہم تین باتوں کی مکمل تربیت پاتے ہیں ایک اس بات کی کہ ہم اپنی تمام خواہشات پر اور ساری بنیادی ضررویات پر اللہ تعالی کے حکم کو اولیت دیتے ہیں اورہم وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا اقرا کر لیا ہے ۔اللہ تعالی نے ہمارے لیے ایک نظام بنایا ہے جس میں حلال و حرام کے واضح احکامت ہیں ہم آج اس روزے کی صورت میں اپنی جائز بنیادی ضرورتوں سے منہ موڑ کر اپنی حلال خواہشات سے دامن جھاڑ کر اس بات کی تربیت بھی پانے لگے ہیں اور عملا اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہم اپنے مالک کے کتنے وفادار ہیں کہ وہ اگر ہماری ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں ہم پر کوئی پاپندی لگا دے تو ہم اپنی ضرورت کو ٹھکرا سکتے ہیں مگر اپنے مالک کے حکم کے خلاف ورزی نہیں کر سکتے ۔
دوسری بات یہ جو روزے ہمارے اندر پیدا کرتے ہیں اور اسے ہمارے ذہن میں مستحکم کرتے ہیں وہ ہمارا یہ تصورہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے اور ہمیں ہر حال میں دیکھ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ روزے میں بظاہر نہ کوئی پولیس ہے اور نہ کوئی قوت نافذہ ہے جو جبرا کسی سے روزہ رکھوا سکے روزہ تو ہے ہی ایسی عبادت کہ جشے جبرا رکھا ہی نہیں جا سکتا جب تک کہ آدمی خود ہی اندر سے اس عبادت کو سر انجام دینے پر آمادہ نہ ہو ۔
لہذاروزے کی تکمیل دراصل ایمان کے مستحکم ہونے اور اللہ تعالی کو حاضر و ناظر تسلیم کرنے اور اس کے سامنے اپنے سارے اعمال کا جواب دہ ہونے کا ایک مضبوط ترین ثبوت ہے یہ جذبہ جتنا مضبوط ہو گا اتنا ہی ایمان مستحکم ہو گا اور آدمی جتنا اچھا روزہ دار ہو گا اتنا ہی اچھا پرہیز گار اور متقی ہو گا بشرطیکہ یہ سار اپروگرام اسی جذبے اور احساس ذمہ داری کے ساتھ تکمیل پائے جس کی ہدایت دین نے کی ہے جیسا کہ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا کہ ۔ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھا اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ روزہ ایک انداز شکر گزاری بھی ہے یہ شکر گزاری انواع و اقسام کی نعمتوں کے عطا کرنے کی ہے جو اللہ تعالی نے ہمیں بخشی ہیں اور اس کے حکم سے ہم انہیں پاتے ہیں اور اسی کے احکامات کے تحت ہم انہیں استعمال کرتے ہیں اور روزے صورت میں ہم اپنے مالک کے احکامات پر عمل کر کے اس کا اظہار کر رہے ہیں کہ آپ نے ہمیں کھلایا آپ نے ہمیں پلایا اور آپ ہی کی سب عطا ہے آج آپ نے منع کر دیا ہے کہ اس تھوڑے سے وقت میں کھانے اور پینے سے اجتناب کرنا تو ہم آپ کے شکر گزار بندے آپ کے ہر حکم کی تعمیل کو حا ضر ہیں ۔
اور پھر شکر گزا ر اور  اس قرآن کی نعمت کے ملنے پر بھی جو ہمارے مالک نے اسی مہنیے میں عطا کیا ہے اور جو ہمارے لیے سرمایہ ہدایت ہے ۔
اب غور فرمائیے کہ جو بندہ اپنے رب کی اطاعت میں روزہ رکھ رہا ہے اور پورے احتساب و ایمان کے ساتھ اپنے فریضے کو سر انجام دے رہا ہے وہ حقیقتا تقوی کی تربیت بھی پا رہا ہے اور قرب الہی کے حصول کی کوشش بھی کر رہا ہے اور اپنے رب کا شکر گزار بھی ہو رہا ہے ۔
ایسے ہی بندے کے لیے اس حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ روزہ اور قرآن دونوں قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ جلال میں اس کی سفارش کریں گے اور ان دونوں کی سفارش کو اللہ تعالی قبول فرمائیں گے اور روزہ دار کی نجات اور مغفرت ہوگی ۔ اللہ ہمیں اس سفارش کی اہل بنائے اور روزے اور قرآن کی شفاعت ہمارے حق میں قبول فرمائے ۔ امین ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مزیدخبریں