بس ایک مہینہ ؟

پیرس کی ڈائری 
محمود بھٹی 
 سوشل میڈیا بھی ایسا انوکھا مادر پدر آزاد پلیٹ فارم ہے جس پر ماسوائے اسرائیل ، یہودیوں اور عیسائیوں ہر کسی کیخلاف کچھ بھی ٹیکسٹ یا ویڈیو پوسٹ کی جاسکتی ہے، اس کے پھیلائے گئے انتشار نے عرب ممالک کے سوشل اور سیاسی سیٹ اپ کو برباد کردیا ہے ، پاکستان  میں بھی اس کی پھیلائی گئی تباہی کا سلسلہ جاری ہے، سوشل میڈیا کو تعلیم ،ہنر اور کاروبار کیلئے استعمال کرکے ،مغربی ممالک اور بھارتی  غیر ملکی زرمبادلہ کما رہے ہیں جبکہ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت مزاح اور عامیانہ ویڈیوز بناکر ٹک ٹاک وغیرہ سے آسان اور معمولی کمائی کے چکر میں پھنس گئی ہے، پہلے تو سابقہ حکومت کی جانب سے اوسط درجہ ذہنیت و قابلیت کے حامل تبدیلی زدہ نوجوانوں کو معاوضے دیکر اس پر  مخصوص ایجنڈہ پورا کرنیکا ٹاسک دیا جاتا تھا، حکومت ختم ہونیکے بعد یہ نوجوان بچے بچیاں بیروزگار ہوچکے ہیں،اب یہ ہتک عزت پر مبنی مواد اپ لوڈ کرنے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں تاکہ آن لائن کمائی تو ہو سکے،ان میں سے متعدد خود کو یوٹوبر صحافی قرار دیتے ہیں اگرچہ ان میں سے اکثر کا کسی باقاعدہ  اور مصدقہ میڈیا ہائوس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے،یہ یوٹیوبر جھوٹ اور شر پھیلا کر ریاست پاکستان کے درپے ہیں،اب ہر پلیٹ فارم پر یہ موضوع زیر بحث ہے کہ ان زومبیوں پر کیسے قابو پایا جائے؟ جس وقت ان زومبیوں کی فصل بوئی جارہی تھی تو اس وقت پیشہ ور صحافیوں نے واضح طور پر خبردار کردیا تھا اس فصل کی پیداوار انتہائی کڑوی ہوگی اور پیدا کرنیوالوں کو خود اس کا مزہ چکھنا پڑیگا، لیکن اس وقت یہ نشاندہی نظر اندازکردی گئی تھی، حکمران شخصیات اور مخصوص سیاستدانوں کو بدنام کر نے کی جو مہم چلائی گئی  اس نے معاشرے اور سیاست میں موجود مثبت روایات کو تباہ و برباد کردیا ہے،اس غلاظت نے اب ملک کے ہر ادارے کو ٹارگٹ کرلیا ہے اور کسی صورت یہ قابو میں نہیں آرہے ہیں ، یہ لوگ تسلسل سے جھوٹ بول رہے ہیں، شر پھیلا رہے ہیں، انتشار کے بم پھوڑ کر بے یقینی کا سونامی برپا کر رہے ہیں، یہاں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ان زومبیوں پر قابو پر کیسے انکا خاتمہ کیا جائے؟میں تو یہ کہوں کا ہتک عزت کا قانون موجود ہے۔ اس کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے تمام سوشل  میڈیا کو اس میں شامل کرلیا جائے، کسی بھی فرد اور ادارے کیخلاف غلط بیانی کرنے اور جھوٹے الزامات لگانے والوں کیلئے ایسے قوائد مرتب کئے جائیں کہ کوئی ایسا عمل کرنے کے بارے میں نہ سوچے، کوئی مین سٹریم میڈیا ہائوس جھوٹی خبریں شائع کرے تو برطانیہ کی طرح اس ادارے کو بند کردیا جائے، یہ بھی قانون بنادیا جائے کہ فیس بک اور یوٹیوب چینل سمیت ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر صرف ورکنگ صحافی ہی چینل بناکر وی لوگ کرسکتا اور خبریں شائع کرسکتا ہے تاکہ جھوٹی خبر وں کے پھیلائو کو موثر طریقے سے روکا جاسکے، نوجوانوں کو ٹک ٹاک ، یوٹیوبر بننے کی بجائے کسی مثبت کام اور ہنر حاصل کرنے پر ابھارا جائے، مزاحیہ قسم کی ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کو سراہ کر انکی بالکل بھی نشونما نہ کی جائے، ماہ رمضان کی آمد کے بعد دنیا بھر کے عیسائیوں اور یہودیوں کے بڑے برینڈز نے مسلمانوں کیلئے تمام اشیاء پر سیل لگا دی ہے  جبکہ میرے وطن کے مسلمان حاجی پانچ وقت نمازیں ادا کرکے دو گنا اور تین مہنگی اشیاء بیچ کر عوام کی کھالیں اتارنے میں مصروف ہیں، انھیں یہ یقین ہے کہ ایسا کرنے سے انکی نمازوں اور روزوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، سوچتا ہوں کہ روز جزا اللہ میاں ایسے پاکستانی حاجیوں کو کس بنا پر معافی دیں گے؟ اور یہودیوں اور عیسائیوں کو کس بنا پر سزا دیں گے؟ مصنف اشفاق احمد سے منسوب آج کی آخری دلچسپ بات یہ رہی ، اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ایک دن آفس کولیگ گوری نے مجھے مخاطب کرکے پوچھا یہ جو تم لوگ رمضان کا پورا مہینہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہتے ہو اس سے تمہیں کیا ملتا ہے؟اشفاق احمد بولے روزہ ایک عبادت ہے،یہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے، روزے کے دوران جھوٹ نہ بولنا، ایمانداری سے اپنا کام کرنا، پورا تولنا، انصاف کرنا ، زکو ۃ ادا کرنا، دوسروں کو مدد کرنا اور تمام برے کاموں سے بچنا  لازمی ہوتا ہے، گوری انتہائی سنجیدگی سے بولی ہمیں تو سارا سال ان کاموں سے بچنا ہوتا ہے، آپ کے تو مزے ہی مزے ہیں  آپ کو بس ایک مہینہ ہی آپ کو یہ سب کرنا پڑتا ہے؟

ای پیپر دی نیشن