بزمِ مصنّفین ہزارہ کی شان، ڈاکٹر چن مبارک ہزاروی

قابل رشک …  ریاض ملک

انائوں نفرتوں، خود غرضیوں کے ٹھہرے پانی میں
محبت گھولنے والے بڑے درویش ہوتے ہیں                                  
   کچھ لوگ اتنے ملنسار اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں کہ ملتے ہی دل میں اتر جاتے ہیں جوں جوں ان سے راہ و رسم بڑھتی جاتی ہے ان کی شخصیت کے بند دریچے بھی کھلتے چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ دل میں ایسے التی پالتی مار کر بیٹھتے ہیں کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ جی ہاں بالکل ایسی ہی ایک وضع دار شخصیت، درویش ہزارہ ڈاکٹر چن مبارک ہزاروی ہیں جو 17 دسمبر 1959 کو ضلع ہری پور کے نواحی گاوں "پھولدار" میں اعوان قبیلے کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ، یہ درویش ہزارہ، بزمِ مصنّفین ہزارہ کی آن بھی ہیں اور شان بھی، اعوان برادری کی جان بھی ہیں اور پہچان بھی، یہی نہیں، اس کے علاوہ چیمبر ا?ف کامرس اینڈ انڈسٹری(FPCCI) کی میڈیا کمیٹی کے چیئرمین، ہری پور چیمبر ا?ف کامرس کے ایگزیکٹیو باڈی کے ممبر، جماعت اہلسنت پاکستان کے صوبائی ناظم مالیات، عالمی تنظیم اہل سنت کی نو رکنی سپریم کونسل کے ممبر، غلامانِ ثاقیِ کوثر ؐ کے بانی،  میلاد مصطفی ؐ کی محفلیں سجانے والے سچے عاشق رسول ، خدمت خلق سے سرشار، خلوص کے پیکر اور ایسی بے شمار کئی اور خوبیوں کے مالک بھی ہیں۔ میں نے انہیں درویش کا لقب اس لیے دیا ہے کہ یہ باریش بھی ہیں اور صوفی بھی، دل کے اجلے بھی ہیں اور مزاج کے دھیمے بھی، لہجے میں میٹھاس بھی ہے اور دل میں محبت بھی، ان کا عمامہ بھی گنبد خضرا کی شبیہ ہے اور لباس بھی سنت مبارک کے مطابق۔ سادگی اور انکساری بھی بدرجہ اتم، پھرکیوں نہ کہوں کہ اناوں، نفرتوں، اور خود غرضیوں کے ٹھہرے پانی میں محبت گھولنے والے درویش یہی تو ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش رح اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ میں "فقر اور اس کا مقام" میں لکھتے ہیں " فقیر (درویش) وہ ہے جو نہ تو اسباب دنیاوی کے موجود ہونے پر وہ غنی ہو اور نہ ان کی عدم موجودگی سے ان کا محتاج ہو، اس کے فقر کے نزدیک اسباب کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے" ڈاکٹر صاحب اسباب دنیاوی کے ہوتے ہوئے اگر درویشی اختیار کیے ہوئے ہیں تو یہ محض ان پر اللّہ تعالیٰ کا کرم اور حضوؐرکی محبت کا صلہ ہی تو ہے۔.    پاکستان کے ایک خطے کو قدرت نے اپنی نعمتوں سے خوب نوازا ہے کیا نہیں ہے اس خطے میں،  کوہ ہمالیہ کی گود میں سوئے مرغزار، سفید چادر اوڑھے بلند وبالا کوہسار، آسمان سے باتیں کرتے چیڑھ اور دیودار کے درخت، نغمہ سرا آبشاریں، ناگن کی طرح بل کھاتی شاہراہِ ریشم، ریشم کی طرح مخملی میدان، میدانوں میں پھلوں کے باغات، اور باغات میں پرندوں کی چہچہاہٹ، پیار کا اک جہاں جھیل سیف الملوک، جھیلوں کی سر زمین، ناران اور کاغان کی سر سبز اور شاداب وادی، شہدائے بالاکوٹ کے مزارات، صاف شفاف بہتے دریا کنہار، اباسین، اور سرن- پکھل کے سر سبز میدان اور لہلہاتے کھیت، گہری نیلی تربیلا جھیل، ایبٹ آباد کا تاج کوہ سربن، دلکش سیر گاہ شملہ پہاڑی، ایوبیہ اور نتھیاگلی کے حسیں نظارے، کاکول اکیڈمی، یہ سب کچھ پاکستان کے جس خطے میں ہے وہ ہے ہزارہ ڈویڑن اور پھر اس خطے کے باسی اپنے نام کے ساتھ کیوں نہ ہزاروی لگائیں، ڈاکٹر چن مبارک نے اپنے نام کے ساتھ ہزاروی لگا کر اس خطے سے محبت کا ثبوت دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی طرح مجھے بھی ہزارہ سے اتنی ہی محبت ہے، میں نے اپنے شعری مجموعے" پربتوں کی چھاوں میں" ہزارہ کے حسن پہ طویل نظمیں لکھی ہیں جن میں سے دو شعر ہزارہ سے محبت رکھنے والوں کی نذر کرتا ہوں۔۔
 ہزارہ حسین کوہساروں کی وادی
یہی ہے یہی ہے بہاروں کی وادی
بہت خوب صورت تیری وادیاں ہیں
کہ جیسے یہ سب سسیاں سوہنیاں ہیں
آئیے ڈاکٹر صاحب کی حضور محتشم ؐکے ساتھ محبت اور عقیدت دیکھتے ہیں، فرمان باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) بے شک اللّہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر، اے ایمان والو تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجو. الاحزاب (33) آیت 56. ڈاکٹر چن مبارک ہزاروی کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کی روشنی میں ہر جمعرات کو درود شریف اور ذکر اذکار کی محفل سجاتے ہیں اور اس با برکت محفل میں عاشقان مصطفی  کی کثیر تعداد شریک ہوتی ہے۔ وہ حج اور کئی مرتبہ عمرہ کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں، عمرہ سے واپس آتے ہی قدم پھر حجاز مقدس کی طرف اٹھنے کو بے تاب ہوتے ہیں۔ انکو کئی بار مسجد الحرام بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی مدینہ منورہ میں بھی رمضان المبارک کے مسنون اعتکاف کی سعادت نصیب ہوئی ہے 1982 سے اب تک مسلسل مقامی مسجد میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں انہیں اعتکاف کی سعادت نصیب ہوتی رہی ہے جب کہ دو مرتبہ پورے مہینے کے اعتکاف کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ہزاروی صاحب بزم مصنفین ہزارہ کے چیف آرگنائزر بھی ہیں مصنّفین ہزارہ کے لیے آپ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گیں۔ آپ نے بزم مصنّفین ہزارہ کے لیے ایک صفحہ "گوشہ ادب" مختص کر رکھا ہے۔ جس میں صرف اور صرف بزم مصنّفین ہزارہ کے لکھاریوں کی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔وہ سیدنا شیخ احمد دباغ مدظلہ کے خاص مرید ہیں اور الطریقہ المحمدیہ پاکستان کے متحرک خدمت گار بھی ہیں۔صحافت کے پرخار سفر میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں مگر پائے استقلال میں کبھی لرزش نہ آئی۔ تیس سال سے بہ بانگِ دہل حق اور سچ کے ساتھ کھڑے رہ کر قلمی جہاد کرتے آ رہے ہیں انکا شمار ہری پور پریس کلب کے بانی اراکین میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر چن مبارک ہزاروی یہ سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ کو پانے کے لیے کیوں نہ اس سے محبت کی جائے جس سے خود اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں، علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔                               
  قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں عشق محمد سے اجالا کر دے
اب ذرا محمد عظیم ناشاد اعوان کی بات ہو جائے جو بزم مصنّفین ہزارہ کے صدر ہیں اور صدر کے بارے میں کہا جاتا ہے " صدر ہر جا کہ نشیند صدر است" بہت ہی اچھے مصنف اور محقق ہیں. ڈاکٹر چن مبارک ہزاروی کی خدمات اور شخصیت کو کتابی شکل دینے میں پہل کر کے ہم سب پر سبقت لے گئے ہیں یہ بھی بتاتا چلوں کہ انہیں تو اور بھی غم ہیں زمانے میں " لکھنے" کے سوا۔ وہ ایک معلم بھی ہیں بچوں کو پڑھانے کا فریضہ بھی احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں تنظیم کے امور بھی خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں اور کبھی کبھی بجلی کی تاروں کو تان پورا سمجھ کر چھیڑ دیتے ہیں اور پھر رات گئے تک دیپک راگ گاتے رہتے ہیں، ایسا گاتے ہیں تان سین نے کیا گایا ہو گا عظیم ناشاد اور تان سین میں فرق صرف اتنا ہے تان سین جب دیپک راگ چھیڑتے تھے تو سر لے سے خود بخود آگ بھڑک اٹھتی تھی ادھر عظیم ناشاد سے اگر ذرا سا سر غلط لگ جاتا ہے تو فوراً تاروں سے اک شعلہ سا اٹھتا ہے اور پھر راگ کی جگہ راکھ اڑتی ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ عظیم ناشاد کو اور ہمت، جذبہ اور علم عطا فرمائے تاکہ یہ لکھتے ہی رہیں اور خوب سے خوب تر لکھتے رہیں۔ ( نوٹ : صاحب  مضمون چیئرمین بزمِ مصنفین ہزارہ پاکستان ہیں)

ای پیپر دی نیشن