ٹی ٹاک
طلعت عباس خان
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
کہاوتیں بڑی دلچسِپ ،مزے دار، سبق آموز اور تجربات کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ کہاوتوں سے جڑی کہانیوں سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان میں چھپے سبق سے زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ بندہ سیکھ جاتا ہے۔جیسے ایک محاورہ '' یہ ٹیری کھیر ہے'' یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب بہت مشکل اور ٹیڑھا کام سر پر آن پڑے۔ قصہ کچھ یوں ہے۔ ایک شخص نے کھیر پکائی، اس نے سوچا اللہ کے نام پر کسی فقیر کو بھی دے دیتا ہوں۔ اسے جو فقیر ملا اتفاق سے وہ نابینا تھا۔ اسے کھیر کے متعلق کچھ پتہ نہ تھا۔ پوچھا کیا تم کھیر کھاؤ گے؟ اس پر فقیر بولا کھیر کیسی ہوتی ہے؟ کہا سفید۔ یہ تو نابینا تھا اس کو کیا پتہ کہ سفید رنگ کیا ہوتا ہے؟ فقیر نے پوچھا سفید رنگ کیسا ہوتا ہے۔ جواب دیا بگلے جیسا۔ پوچھا بگلا کیسے ہوتا ہے؟ اب اس کو سمجھانے کے لیے اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔ انگلیوں اور ہتھیلی کو ٹیڑھا کر کے بگلے کی گردن کی طرح بناکر اور بولا ایسا ہوتا ہے۔ نابینا فقیر نے اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ کو ٹٹولا اور کہا نہ بابا یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے یہ گلے میں اٹک جائی گی۔ میں یہ کھیر نہیں کھا سکتا۔ تب سے ٹیڑھی کھیر کا محاورہ مشہور ہے۔مشکل اور ٹیرا کام نہ کرنے پر یہ محاورہ بولا جاتا ہے۔اسی طرح کا ایک محاورہ ہے'' اونٹ کے گلے میں بلی '' اس کا مطلب یہ ہے کہ فالتو چیز کی قیمت کام کی چیز سے زیادہ ہونے پر یہ محاورہ بولا جاتا ہے۔جیسے پٹرول گیس بجلی کے بلوں میں آئی ایم ایف کے قرض کی واپسی کی وجہ سے بلوں میں دوسری چیزیں شامل کر دی جاتیں ہیں۔ایسے حالات میں اونٹ کے گلے میں بلی کا محاورہ یاد آتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں یہ گیس بجلی پٹرول کی قیمتیں اونٹ کے گلے میں بلی ہیں۔یہ ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص ضروری چیز کے ساتھ غیر ضروری چیز خریدنے کی شرط رکھتا ہے۔ اس کہاوت کی کہانی کچھ یوں یے کہ ایک شخص کا اونٹ کھو گیا۔ اس نے اس کی بہت تلاش کی مگر نہ ملا۔ اس نے سارا شہر چھان مارا مگر اونٹ کا کوئی پتہ نہ چلا۔ اس پر اسے غصہ آیا اور کہہ دیا کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر یہ اونٹ مل گیا تو اسے ایک روپے میں بیچ دونگا۔ یہ بات چاروں طرف پھیل گئی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جلد ہی اسے یہ اونٹ مل گیا۔ لوگوں کو جب پتہ چلا تو ایک روپے میں یہ اونٹ خریدنے اس کے گھر پہنچ گئے۔ اب تو یہ شخص بہت گھبرایا۔ ایک دوست سے مشورہ کیا کہ اب میں کیا کروں؟ اس موقع پر عقلمند دوست نے مشورہ دیا کہ اونٹ کے گلے میں ایک لمبی رسی باندھو اور اس رسی کے دوسرے سرے پر ایک عام سی بلی باندھ دو۔ اونٹ کی قیمت ایک روپیہ ہی رکھو لیکن بلی کی قیمت ایک سو روپے رکھو۔ خریدار کیلئے ضروری ہو کہ وہ اونٹ کے ساتھ بلی بھی خریدے۔ صرف اونٹ اکیلا نہیں بیچا جائے گا۔ اس نے ایسا ہی کیا تو لوگ گھروں کو واپس لوٹتے جاتے اور کہتے اونٹ کے گلے میں بلی۔ جس کے بعد یہ کہاوت مشہور ہو گئی کہ اونٹ کے گلے میں بلی!! اسی طرح کا ایک محاورہ جو آجکل بہت معروف ہے۔چو مکا لڑائی کے بعد یاد آیاسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے،۔ اس محاورہ میں سابق کمشنر راولپنڈی چٹھہ نے جان ڈال دی ہے۔ الیکشن آٹھ فروری کو ہوتے ہیں۔راولپنڈی کمشنر چٹھہ صاحب نے 17 فروری 2024 کو اچانک پریس کانفرنس کر ڈالی جس کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر۔ قومی الیکشن کے نو روز بعد اس نے پریس کانفرنس کی۔جب کہ دس دن کے بعد اسے اپنی نوکری سے ریٹائر ہو جانا تھا۔ ایسے وقت میں خوشی خوشی گھر جانے کی تیاریاں کرتا، الوادعی ملاقاتیں کرتا تو اچھا ہوتا مگر نہ جانے اسے جھوٹ پر مبنی ایٹنگ کرنے کا دورہ کیسے اور کیوں پڑا۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ میرے اس جھوٹے بیانے سے ملکی ساگ خراب ہو گی۔مجھ پر میرے خاندان میرے ساتھیوں پر کیا گزرے گی۔ پریس کانفرنس میں بتایا کہ کل میرا ضمیر اس وقت اچانگ جاگا جب میں صبح سو کر اٹھا تو خود کشی کرنے کا سوچا مگرارادہ بدل لیا کہ جو کچھ میری وجہ سے یہ ہمارے ممبران اسمبلی ہارے ہوئیجیتے ہیں۔ کیوں نہ میں یہ سب کو بتاؤں لہذا یہ پریس کانفرنس اسی سلسلے میں کر رہا ہوں۔ کہا میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے الیکشن نتائج بدل کر ہارنے والوں کو جتوایا تھا جب کہ یہ سارے کے سارے ممبران اسمبلی ستر ستر ہزار کی ووٹ سے ہار چکے تھے۔ایسا غلط کام کرنے ہر میرا ضمیر اب جاگ اٹھا ہے مجھے ملامت کر رہا ہے لہٰذا جو کچھ میں نے اس وقت کیا اس پر ساری قوم سے میں معافی مانگتا ہو۔ سب سے شرمندہ ہوں، اب میری خواہش ہے کہ مجھے چیف الیکشن کمشنر اورچیف جسٹس آف پاکستان کو ایک ساتھ راولپنڈی کے کچہری چوک میں لٹکایا جائے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شہید بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔ اس کی پریس کانفرنس سن کر سوائے ایک جماعت کے ورکروں لیڈروں نے اسے الزامات لگانے پر شاباش دی۔خوشی کا اظہار کیا کہا دیکھا جو بات جو الزامات ہم لگا رہے تھے اب اس کمشنر نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم سچے تھے اور ہیں۔پھر سب نے دیکھا اس کی پریس کانفرنس کے بعد میڈیا پر طوفان بدتمیزی چل اٹھا۔اس جماعت کے ورکروں نے اس کی پریس کانفرنس کو سامنے رکھ کر دنیا ساری میں اپنے اداروں کو بدنام کرنا شروع کیا۔اس کے حق میں زندہ باد کے نعرے لگائے۔ کہا اب ہم آئی ایم ایف کو بھی خط لکھیں گے کہ یہ الیکشن شفاف نہیں ہوئے۔ کہااس کا ثبوت اب راولپنڈی کے کمشنر چٹھہ کی صورت میں مل چکا ہے۔ اس نیسب کو بے نقاب کر دیا ہے۔کہا اس کی انکوائری کرائی جائے۔ یہ بھی کہا اس انکوائری میں نہ تو چیف الیکشن کمشنر اور نہ ہی چیف جسٹس آف پاکستان اس انکوائری کا حصہ بنیں۔ ان کے اس بیان کے بعد شام کو ہی کمشنر راولپنڈی چٹھہ کا ایک بار پھر ضمیر جاگ اٹھا۔ بول کر کہا بھی اور لکھ کر بتایا بھی کہ میں نے کل جو پریس کانفرنس میں باتیں کی تھی وہ اس جماعت کے بانی کے کہنے پر کی تھی۔اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ میری جھوٹی پریس کانفرنس تھی۔میں نے سب پر غلط الزامات لگائے تھے۔ جس پر اب میں پوری قوم سے معافی مانگتا ہوں اپنے کئے پر شرمندہ ہوں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہے تھا۔ چٹھہ کی یہ باتیں سن کر پارٹی کے بانی نے کہا کہ لگتا ہے کہ اس کا سافٹ وئیر اب بدل دیا گیا ہے۔ یہ بات بانی نے تجربے کی بنیاد پر کی ہے۔کیونکہ ان کے بہت سے پارٹی لیڈر ملک اور پارٹی بھی چھوڑ چکے ہیں۔ ایسا ان سب کا سافٹ وئیر کے بدلنے سے ہوا ہے۔ چلیں یہ خوش خبری ہے کہ ملک میں سافٹ ویئر بدلنے کی سہولت میسر ہے۔ معلوم نہیں کہ کمشنر صاحب کا سافٹ ویئر پہلے سے خراب تھا یا اب خراپ ہوا ہے یا اب ٹھیک ہوا ہے۔یہ کمشنر صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔یہ بھی بتا سکتے ہیں ک پہلے یا اب جھوٹ بولا تھا۔ لگتا یہی ہے انہیں جھوٹ بولنے کا پہلے سے تجربہ تھا۔ سوال ہے اس نے ایسا کرنے سے قبل یہ کیوں نہ سوچا کہ دوسروں کو بدنام کرتے ہوئے کئی میں خود اس کام میں ذلیل نہ ہو جاؤں۔مگر اب اس نے اپنے اوپر وہ داغ لگا لیا ہے جس کا صاف کرنا ممکن نہیں۔ لیکن کمال ہے اس بار اس نے یو ٹرن لیتے ہوئے کسی قسم کی خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ راولپنڈی کچہری چوک میں کھڑا کر کے مجھے سزا دی جائے۔ جب کہ عوام کو اب ان سے یہ امید تھی کہ یہ اب کہے گا جو کچھ میں نے گند کیا ہے جن جن پر الزامات لگا? ہیں وہ سب راولپنڈی کچہری چوک پر آئیں مجھ پر تھوکیں میری چھترول کریں تانکہ کم از کم میری بے وقت ضمیر جو بار بار جاگ جاتی ہے وہ نہ جاگا کرے۔ مجھے اتنی سزا دیں کہ لوگ اس سے سبق سیکھیں، کوئی بھی اس عمر میں میرے بعد ایسی کسی افسر کا ضمیر نہ جاگے۔ جو غلطی مجھ سیسرزرد ہوئی ہے کوئی دوسرا میرے بعد ایسی پریس کانفرنس کرنے کی غلطی نہ کرے جو مکا میں نے الزامات لگانے سے پہلے کسی کو نہیں مارا تھا اب اس مکا کو میں اب اپنے آپ کو ماروں گا سرعام مارو گا اور آئیں آپ بھی مجھے ماریں۔ یہ محاورہ بھول چکا تھا مگر اب یہ محاورہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا.کہ جو مکا لڑائی کے بعد یاد آیا اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔یہ محاورے تجربات کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ہی ہمارے روزمرہ کے استعمال میں رہتے ہیں!!یہ محاورے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔اگر دماغ رکھتے ہیں سوچ رکھتے اور ہلال کا نوالہ کھاتے ہیں تو ان محاوروں سے سیکھا جا سکتا ہے۔
کہاوتیں تجربات کا نچوڑ ہیں۔
Mar 18, 2024