لاہور( کامرس رپورٹر)آئی ایم ایف کے ساتھ نیا پروگرام آسان نہیں ہوگا۔آنےوالے دنوں میں پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ون ونڈوآپریشن ہونے سے بیرونی سرمایہ کاری میں فائدہ ہوسکتا ہے لیکن سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کیلئے مراعاتی سکیمیں دینا ہوں گی۔ آئی ایم ایف ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بات کررہاہے۔ ڈائریکٹ ٹیکسز کی طرف جانا چاہیے تاکہ اشرافیہ کومیسر سبسڈی ختم ہوسکے۔ آئی ایم ایف کی جس طرز کی شرائط سامنے آرہی ہیں۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ کسی طور پر ترقی کا ٹول ثابت نہیں ہو سکتا۔
ان خیالات کا اظہار نامور ماہر معاشیات اورٹیکس ماہرین زاہد عتیق چودھری ،عاشق علی رانا ،ڈاکٹر اکرام الحق ،ملک ہارون احمد ،محمد صفدر ،فیصل اقبال خواجہ ،رانا محمد آصف ،طارق محمود میو،فاروق مجید اورچودھری امانت بشیر نے پوسٹ بجٹ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
شرکاءنے کہا کہ آئی ایم ایف کہتاہے کہ درآمدات پرمخصوص پابندی کوبھی ختم کریں۔ آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ سال درآمدات پرپابندی کانقصان ہوا۔ آئی ایم ایف کی نظرمیں پاکستان میں ڈالرریٹ311 روپے ہوناچاہیے۔ شرکاءنے کہا کہ کرونا سے پہلے خط غربت کا پیمانہ 35 فیصد تھا اب 40 فیصد تک آگیا ہے۔ بیروزگاری کا پیمانہ 6 فیصد ہوا کرتا تھا آج 10 فیصد تک چلا گیا ہے، لوگوں کی قوت خرید میں کمی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معاشی نظام میں جتنا بیگاڑ پیدا ہو گیا ہے اسے سدھارنے کیلئے سالوں درکار ہیں۔ یہ توقع رکھنا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ سے معیشت کو تحرک یا عوام کو ریلیف ملے گا اس کے کوئی آثار نہیں۔