کئی برسوں سے ملک پر حکمرانی کرنے والے ولادیمیر پیوٹن مسلسل پانچویں بار روس کے صدر منتخب ہو گئے جنہوں نے 87.9 فیصد ووٹوں کے ساتھ روسی صدارتی انتخاب جیت لیا، پیوٹن کے مقابلے پر تین صدارتی امیدواروں میں سے ہر ایک صرف 4 فیصد ووٹ ہی حاصل کرپایا۔ روسی میڈیا کے مطابق روس میں صدارتی انتخابات کے لیے تین روز تک ووٹنگ کا عمل جاری رہا، اس دوران صدارتی الیکشن میں 11 کروڑ 23 لاکھ ووٹرز میں سے 74 فیصد نے ووٹ کاسٹ کیا، صدارتی انتخاب میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ چیچنیا میں رہا جہاں 96 فیصد شہریوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا، صدارتی انتخابات کے دوران آن لائن ووٹنگ بھی ہوئی اور خود صدر پیوٹن نے بھی کمپیوٹر پر ان لائن ووٹ کاسٹ کیا۔ صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد اپنے خطاب میں روس کے نومنتخب صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ یہاں انتخابی نظام امریکا سے زیادہ شفاف ہے، امریکہ سمیت مغرب میں کوئی جمہوریت نہیں ہے، میرا انتخاب روسی عوام کے مجھ پر اعتماد کا اظہار ہے، میں حمایت اور اعتماد کے لیے تمام ہم وطنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، یہ مغرب کے لیے پیغام ہے کہ اسے ایک جرات مند روس سے واسطہ پڑے گا، آنے والے برسوں میں چاہے جنگ میں ہو یا امن ہمیں ڈرایا، دھمکایا اور دبایا نہیں جا سکے گا، کوئی روسیوں کو شکست نہیں دے سکتا، روس کو اپنی فوج کو مزید مضبوط بنانا ہوگا، میری جیت روس کو مضبوط بنا دے گی۔ پیوٹن نے مزید کہا کہ چین کے خلاف پابندیاں ختم ہونی ہی ہیں، چین اور روس کے درمیان پائیدار تعلقات مستقبل میں مزید مضبوط ہوں گے، یوکرین میں امن سے متعلق بات چیت کے لیے یوکرینی صدر آپشن نہیں ہے، یوکرین میں مغربی فوج کی موجودگی دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر پہنچا سکتی ہے، روس کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ یوکرین میں امن کے لیے کس سے بات کی جا سکتی ہے