خدا کا شکر ہے کہ مجھے دوسری نعمتوں کے ساتھ ساتھ رب باری تعالیٰ نے انکل بھی وافر مقدار میں دئیے ہیں۔ انکل تو رشتے کے علاوہ عمر میں بھی اکثر بڑے ہی ہوتے ہیں مگر میرے ساتھ یہ ہوا ہے کہ میرے کافی انکل عمر میں بے شک مجھ سے چھوٹے لیکن عقل و ہمت میں مجھ سے بڑے ہیں۔ انہی کے سہارے میں بھی جوان ہوں۔ ان میں سے آج صرف ایک انکل کا تذکرہ کر رہا ہوں۔ کئی سال پہلے کا ذکر ہے کہ لاہور کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں بھارتی وفد ٹھہرا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے کچھ لبرل لوگوں نے میرے پاکستان کے پرچم سے اوپر بھارتی پرچم چسپاں کر دیا تھا جس کے سبب میرا پیارا پرچم ہی نہیں میں بھی تلملاتا رہا تھا۔ اس موقع پر راقم نے خواجہ سعد رفیق کو ٹیلی فون کیا اور روتے روتے اپنا دکھڑا سنایا۔ جواب میں خواجہ سعد رفیق نے کہا ”انکل تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائے گا“ اور پھر ایسا ہی ہوا جواں سال اور جواں ہمت سعد رفیق ہوٹل میں آئے تو پاکستان کا پیارا پرچم اس کے اصل مقام پر لگا دیا جس سے مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میرا پیارا پرچم جو کچھ دیر پہلے میری طرح دکھی تھا تلملا رہا تھا اب خوش ہے اور پوری آب و تاب سے لہرا رہا ہے۔
ان خواجہ سعد رفیق صاحب کو میں نے زندگی بھر اس کے بعد کبھی بیٹا نہیں کہا بلکہ انکل کہنا شروع کر دیا جنہوں نے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند رکھنے کے لئے کئی مرتبہ کوشش کی۔اب میرے کچھ دانشور نما دوست ٹوئٹر کے ذریعے ایسی کچھ باتیں منظر عام پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ٹھیک نہیں۔ اس پر میرے جیسے بوڑھے تو خاموش ہو گئے لیکن چوڑے چکلے سینوں والے راجہ ظفرالحق جونیئر خم ٹھونک کر میدان میںآ گئے!! جناب سعد رفیق نے بھی اس” منظوم“ پراپیگنڈے کا الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا پر جس جی داری سے مقابلہ کیا تو میرے جیسے لوگ بھی سفید بالوں کے ساتھ جواں ہو گئے! اب خواجہ سعد رفیق مسلم لیگ کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ترجمانی کے لئے بھی شاید آگے آ رہے ہیں۔ تو دل سے دعا اٹھ رہی ہے ”رب رکھے مان جواناں دا“خواجہ سعد رفیق جس طرح قومی اسمبلی کے ایک مرتبہ پھر ممبر بنے ہیں اس پر کافی غیر نظریاتی لوگوں کو پریشانی ہو گئی ہے! مگر جس طرح خواجہ سعد رفیق نے اپنے شہید والد اور مرحومہ والد صاحبہ کی طرح چومکھی لڑی ہے اس پر مجھے یک گونہ خوشی ہوئی ہے مگر اپنے بڑھاپے، پیرانہ سالی کے سبب یہ بھی خیال آیا کہ اے کاش! میں بھی اس وقت ان کے ساتھ ہوتا۔
میرا خیال ہے کہ مسلم لیگ اپنی اور ہماری انتخابی کامیابی کے بعد وفاق میں ترجمانی کے لئے بھی اگر خواجہ سعد رفیق کو موقع دے تو وہ یقیناً راجہ ظفرالحق کی طرح اوپننگ بیٹسمین بن کر کافی لوگوں کو آﺅٹ بلکہ ناک آﺅٹ کر سکتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کا ذکر کیا ہے تو ان کے والد محترم خواجہ سعد رفیق شہید کا ذکر بھی تو ہونا چاہئے جنہوں نے مشکل ترین حالات میں خون کے آخری قطرہ تک لڑائی لڑی! جو مرتے دم تک پارلیمانی ایوانوں میں پاکستان کے دیوانوں کی طرح چومکھی لڑتے رہے اور خواجہ حسام صاحب کے ساتھ ساتھ خواجہ سلمان رفیق بھی جس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ ہروائے گئے اس پر اختصار سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”وہی دئیے جلیں گے تو روشنی ہو گی“ جن کے بزرگوں نے لہو کے چراغ جلا کر شمع جمہوریت کو اپنے خون سے روشن کیا!!خواجہ رفیق شہید کی باوقار بیوہ نے جس طرح بڑے خواجہ صاحب کی شہادت کے بعد بچوں کی تربیت کی اور انہیں جی داری سے پاکستان کی خاطر لڑنے کے لئے تیار کیا۔ اس پر بیگم خواجہ رفیق شہید کا نام بھی زندہ رہے گا! ورنہ تو بچوں کے بچپن میں ماں کے بیوہ ہو جانے پر اکثر جیسا حال ہو جاتا ہے اس کی یہ شعر ہی عکاسی کرتا ہے کہ....
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی راکھ میں
لیکن بیگم خواجہ رفیق شہید نے خوبصورت اور بہترین انداز میں بچوں کی تربیت کی۔ اللہ کرے خواجہ سعد اور خواجہ سلمان اسی طرح سینہ سپر رہیں اور پاکستان کے ”سیاسی یتیموں“ کا مقابلہ کرتے رہیں!