”طلُوع ہُوا ۔آفتابِ ٹپّی“

”طلُوع ہُوا ۔آفتابِ ٹپّی“

 15مئی کو ، ایک اخبار میں خبر شائع ہُوئی تھی کہ ۔” اگر صدر زرداری نے اپنے مُنہ بولے بھائی ،جناب اویس مظفر ٹپّی کو ،وزیرِاعلیٰ سِندھ بنایا تو، پاکستان پیپلز پارٹی میں بغاوت ہو جائے گی“۔لیکن دوسرے روز، سِندھ پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر جناب منظور حسین وسّان نے اپنے ایک خواب کے حوالے سے بتایا کہ ۔”اِس بار سندھ کا وزیرِاعلیٰ ۔کوئی بوڑھا نہیں بلکہ نوجوان ہو گا“۔ دروغ برگردنِ راوی کہ، وسّان صاحب، جب اپنے خواب کی تعبیر ،خود بیان کرتے ہیں تو، وہ سچّا ثابت ہوتا ہے “۔ اور تعبیر یہ ہے کہ۔صدرزرداری نے، جناب اویس مظفر ٹپّی کو، وزیرِا علیٰ سندھ بنانے کاحتمی فیصلہ کر لیاہے ۔ بغاوت کا کیا ہے ؟۔وہ تو کئی بار ہوئی۔ باغیوں نے، صدر زرداری کا کیا بگاڑ لِیا؟۔ ”ٹپّی “۔ جناب اویس مظفر کا تخلص ہے یا عُرف؟۔ مجھے نہیں معلوم ۔البتہ یہ معلوم ہے کہ ۔ہندی اور پنجابی میں لفظ ۔”ٹپّنا“۔ کا مطلب ہے ۔کُودنا اور پھاندنا ۔کُودنا اور پھاندنا ۔ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ شاعر نے کہا تھا ۔۔۔
”کُودا، تیرے کُوچے میں، کوئی، دھم ّسے نہ ہو گا
 جو کام ہُوا، ہم سے ، وہ رُستم سے ، نہ ہو گا“
جناب اویس مظفر ٹپّی بھی ۔جنابِ زرداری کے دورِ صدارت میں ، کُوچہءسیاست میں، کُچھ اِس طرح کُودے ہیں کہ۔1967ءمیں۔ پیپلز پارٹی کے قیام سے لے کر ،اب تک ، کوئی رُستم کیا کُودا ہوگا ؟۔ جناب ٹپّی کو ۔” چھُپا رُستم “ ۔ نہیں کہا جا سکتا ۔اِس لئے کہ، سیّد قائم علی شاہ تو محض نام کے وزیرِاعلیٰ سِندھ تھے ، سارے اختیارات ،تو ٹپّی صاحب کے پاس تھے ۔"Wikipedia" ۔ کے مطابق ٹپّی صاحب کے والد ۔صدر زرداری کے والد۔ جناب حاکم علی زرداری کے ۔" Bambino Cinema" ۔ کے مینجرتھے کہ ،جناب حاکم علی زرداری نے، ٹپّی صاحب کو، اپنا Adopted Son (مُتبنّیٰ) بنا لِیا ۔ پھِر جناب آصف زرداری نے بھی ،جناب ٹپّی کو اپنا رضاعی بھائی تسلیم کر لِیا ۔ہندی کے نامور شاعر، گوسوامی تُلسی داس نے کہا تھا ۔۔۔
”تُلسی بانہہ سپُوت کی، بھُولے سے، چھُو جائے
 آپ نبھا وے، عُمر بھر ، بیٹے سے ،کہہ جائے“
یعنی ۔اچھا انسان۔اگر غلطی سے بھی کسی کا امدادی ہو جائے تو پھِر عُمر بھر نبھاتا ہے اور (آخری عُمر میں) بیٹے سے بھی اُس کی مدد کے لئے کہہ جاتا ہے ۔چنانچہ صدر زرداری نے، جنابِ ٹپّی کے ساتھ، برادرانہ تعلقات نبھانے کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ صدر پرویز مشرّف کے دور میں ،جناب ٹپّی دُبئی میں جلا وطن رہے اور وہاںبلاول ہاﺅس کے کئیر ٹیکر تھے۔محترمہ بے نظیربھٹو کے قتل کے بعد ،وطن واپس آگئے اور خوب نام کمایا۔ جناب آصف زرداری کے لئے، جناب اویس مظفر ٹپّی کی وہی حیثیت ہے جو، جناب ذوالفقار علی بھٹو کے لئے، اپنے Talented Cousin جناب ممتاز علی بھٹو کی تھی۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد، جب ذوالفقار علی بھٹو نے، سوِیلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان کا منصب سنبھالا تو ، انہوں نے، جناب ممتاز علی بھٹو کو، سِندھ زون کا مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور گورنر بنایا تھا ۔ممتاز علی بھٹو بہت طاقتور گورنر تھے اور اُس کے بعد وزیرِاعلیٰ بھی رہے،لیکن جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوسرےUncles کی طرح ،Uncleممتاز علی بھٹو صاحب سے بھی جان چھڑا لی ۔
ایک دَور میں ، پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن ، بیگم نُصرت بھٹو ، اپنے مفرُور بیٹے اور دہشت گرد تنظیم ۔ ” الذُوالفقار “۔ کے سربراہ ،مِیر مرتضیٰ بھٹو کو ، سِندھ کا وزیرِاعلیٰ بنوانے کی ،خواہش مند تھیں ۔مِیر مرتضیٰ بھٹو ، اپنی والدہءمحترمہ کی خواہش کے مطابق ہی ۔ 6اکتوبر 1993ءکو ہونے والے ،عام انتخابات سے پہلے ، وطن واپس آگئے تھے ۔ گرفتار ہُوئے ۔سِندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہُوئے۔ پھِر اُن کی ضمانت ہو گئی ۔ بیگم نصرت بھٹو نے ۔پارٹی کی شریک چیئر پرسن ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی مرضی کے خلاف ۔مِیر مرتضیٰ بھٹو کی انتخابی مُہم بھی چلائی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیرِاعظم منتخب ہو کر،بیگم نصرت بھٹو کی خواہش کے مطابق ، مِیرمرتضیٰ بھٹو کو وزیرِاعلیٰ سِندھ بنانے سے انکار کر دِیا اُن دِنوں یہ خبر عام تھی کہ ۔” بیگم نصرت بھٹو اپنی جگہ۔ مِیر مرتضیٰ بھٹو کوپارٹی کا چیئر مین بنانے کا فیصلہ کر چُکی ہیں “۔چنانچہ ،دسمبر1993ءمیں ، پارٹی کی سنٹرل ایگذیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے ، محترمہ بے نظیر بھٹو نے ،اپنی والدہءمحترمہ کو برطرف کر کے ، خود پارٹی کی چیئر مین شِپ سنبھال لی مِیر مرتضیٰ بھٹو آخر دم تک سِندھ اسمبلی میں ،اپنی بہن وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کی پالیسیوں اور بہنوئی آصف علی زرداری کی ذات پر تنقید کرتے رہے ۔یہاں تک کہ 20ستمبر 1996ءکو انہیں ، کراچی میں اُن کے گھر70کلفٹن کے قریب، پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا ۔صدر فاروق احمد خان لُغاری نے، ایک ماہ بعد،جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تو اُن کی حکومت پر ،کرپشن کے الزامات کے ساتھ ساتھ ،مِیر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرانے کا الزام بھی تھا ۔جناب آصف زرداری کو ، مِیر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لِیا گیا تھا ،لیکن وہ 2008ءمیں بری ہو گئے تھے ۔   
بلاول بھٹو زرداری اپنی ممانی (مِیر مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ محترمہ غنویٰ بھٹو) اور اُن کے بچوں فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے لئے ،اپنے دِل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ اپریل میں ۔ جب بلاول بھٹو۔ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر ، اپنی پھوپھی محترمہ فریال تالپور سے ناراض ہو کردُبئی جاکر بیٹھ گئے تو، اُنہیں ایک گِلہ یہ بھی تھا کہ ۔” محترمہ فریال تالپُور ۔اُن کے مقتُول ماموں، مِیر مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ اور بچوں سے اچھا سلُوک نہیں کرتِیں “۔یہ بھی خبر عام ہے کہ جناب بلاول بھٹو ۔ جناب اویس مظفر ٹپّی کو وزیرِاعلیٰ سِندھ بنانے کے حق میں نہیں ہیں۔اگر ایساہُوا تو صدر زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ جناب بلاول بھٹو کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی ؟۔
جناب ممتاز علی بھٹو کافی عرصہ سے ،میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں اور یہ خبریں بھی ہیں کہ، میاں صاحب ۔ جناب ممتاز علی بھٹو کو ، گورنر سِندھ بنانا چاہتے ہیں ۔اگر ایسا ہُوا تو، وزیرِاعلیٰ سِندھ بن کر جنا ب اویس مظفر ٹپّی کے لئے مشکلات تو ہوںگی ۔جناب ِ ٹپّی کی وزیرِاعلیٰ سِندھ کی حیثیت سے ، حلف برداری کے دِن ،اگر جناب حاکم علی زرداری بھی زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے ؟۔ شاعرِ سیاست نے جناب اویس مظفر ٹپّی کو وزیرِا علیٰ سندھ بنائے جانے کی، خبر سے خوش ہو کر ، حلف برداری کی تقریب کے لئے ، پیشگی دو شعرلِکھ دئے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
وزیرِ اعلیٰ، جنابِ ٹپّی
کیا خوب ہے انتخاب ٹپی
تھے منتظر ،اہلِ سِندھ،جِس کے
طلُوع ہُوا ، آفتابِ ٹپّی“

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...