شوال ۳ہجری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بنی غفار کے ایک شخص کو خط دے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ کیا جس میں یہ اطلاع دی گئی کہ کفار کا لشکر جرار مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے روانہ ہوچکا ہے۔ دیگر ذرائع سے کفار کے لشکر کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئیں۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی مجلس مشاورت منعقد فرمائی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا روئے سخن اس جانب کا تھا کہ ہم شہر کے اندر مورچہ بند ہوکر دشمن کا مقابلہ کریں۔اکابر مہاجرین اورانصار کے رائے بھی یہی تھی لیکن پر جوش نوجوانوں کی ایک جماعت جو کسی وجہ سے بدر کے معرکے میں شریک نہیں ہوسکتی تھی ۔ وہ حصول شہادت کے شوق فراواں کے باعث اصرار کررہے تھے کہ ہمیں آگے بڑھ کر دشمن کی یلغار کے سامنے سینہ سپر ہونا چاہیے۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہمیں لے کر دشمنانِ حق کے سامنے چلئے وہ یہ خیال نہ کریں کہ ہم بزدل ہیں، اس لیے گھروں میں سہم کر بیٹھ گئے ہیں۔ان حضرات میں سعد بن عبادہ ،نعمان بن مالک اورانصار کے دیگر نوجوان پیش پیش تھے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے تائید کنذہ تھے انھوںنے اپنے جذبات کا یوں اظہار کیا۔
”اس ذات کی قسم جس نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی کہ میں آج اس وقت تک کھانا نہیں کھاﺅں گا جب تک مدینہ سے باہر نکل کر دشمن کے ساتھ نبردآزما نہیں ہوجاتا“یہ جمعہ کا دن تھا آپ اس دن روزہ سے تھے ،دوسرے دن بھی آپ نے روزہ رکھا اوراسی حالت میں جام شہادت نوش کیا۔
نعمان بن مالک کہنے لگے”یارسول اللہ ! ہمیں جنت سے محروم نہ فرمائیے ۔اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، میں ضرور اس میں داخل ہوجاﺅں گا۔ آپ نے استفسار فرمایا کیسے؟ عرض کیا ،کیونکہ میں اللہ تعالیٰ اوراس کے محبوب سے محبت کرتاہوں اورمیدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہیں کرتا۔ حضور نے فرمایا:تم نے سچ کہا ہے۔ وہ صحابہ جو ابھی عنفوان شباب میں تھے ،وہ بھی بے چین تھے کہ انھیں یہ سعادت حاصل ہو، سترہ ایسے نوجوان تھے جن کی عمریں چودہ سال سے کم تھیں انہیں واپس بھیج دیا گیا ،لیکن رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو اس لیے اجازت مل گئی کہ یہ ماہر تیرانداز ہیں۔ سمرہ بن جندب نے یہ دیکھا تو اپنے سوتیلے باپ مُرّی بن سنان سے کہنے لگے ۔آقا ءکریم نے رافع کو اجازت دے دی ہے ۔جبکہ میں اس سے زیادہ طاقت ور ہوں ،بے شک مجھے ا س سے کشتی لڑائیں ،اگر میں اس کو بچھاڑ دوں تو پھر مجھے بھی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔چنانچہ آپ نے دونوں کو طلب فرمایا اورانھیں کشتی لڑنے کا حکم دیا، سمر ہ اس مقابلے میں سرخرو ہوگئے یوں انھیں بھی اجازت مل گئی، رضی اللہ عنہم اجمعین۔