لندن (بی بی سی ڈاٹ کام) بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی کے رکن لطیف جوہر نے الزام عائد کی ہے کہ پاکستان کے صحافی موت کے ڈر سے سچ اور حق لکھنے سے کتراتے ہیں۔ کراچی پریس کلب میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ 25 روز سے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر ہیں اور اس عرصے میں انکا وزن 22 کلوگرام کم ہوچکا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کو رہا کیا جائے جنہیں مبینہ طور پر کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کیاگیا ہے۔ کمزور جسامت والے نوجوان نے صحافیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ انہیں خبر ہونی چاہئے کہ موت برحق ہے، ہر کسی کو مرنا ہے لیکن جن کا ضمیر مر جائے تو انکی وقت سے پہلے موت ہوجاتی ہے۔ لطیف جوہر نڈھال حالت میں بھی بلوچستان کی سیاسی صورتحال اور اداروں کے رویوں پر آدھا گھنٹے تک بات کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ وہ زندہ بچ نہیں پائیں گے لیکن انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ تاریخ کے اوراق میں زندہ رہیں گے۔ لطیف جوہر نے کہا کہ وہ گزشتہ چوبیس دنوں سے نیوز چینلز کی گاڑیاں ان کے کیمپ سے گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں جو وزرا یا کسی بلی کے بچے تک کے بچانے کی کوشش کی خبریں تک دینے کیلئے دوڑیں لگاتے ہیں لیکن ان کے کیمپ کی طرف نظریں کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ماؤزے تنگ اور مہاتما گاندھی کے مارچ کے بعد اس خطے میں دو ہزار کلومیٹر پیدل مارچ کرنے والے ماما قدیر کا احتجاج خبر نہیں تھی یا حق کی بات کرنے والے دس سالہ چاکر بلوچ کی ہلاکت خبر کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔