حکومت ِ پاکستان نے اخبارات کے ذریعے ایک اشتہار جاری کیا ہے جس میں گراف کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ 2013ء میںپاکستان کے شہری علاقوں میں 12گھنٹے روزانہ کی لوڈشیڈنگ تھی جب کہ 2015ء میںکم ہو کر صرف 6گھنٹے روزانہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔اشتہار کی حد تک تسلیم،لیکن حقیقی صورت حال اس کے برعکس ہے ۔ اسلام آباد کے علاوہ دیگر تمام شہروں میں روزانہ کئی کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ طلباء اور مریض جس طرح متاثر ہو رہے ہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مادرِ وطن کی ہر حکومت نے ہی ہمیشہ اشتہارات کے ذریعے کارکردگی ایک وطیرہ بنا رکھا ہے جو کہ حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔ اگر دیہی علاقوں کا ذکر کیا جائے تو وہاں کی صورت حال یہ ہے کہ ایک فیڈر سے جتنے دیہات کو بجلی کے کنکشن ملے ہوئے ہیں مذکورہ فیڈر کے لیے اس علاقے کے دیہات کو بجلی فراہم کرنے والے فیڈر پر ان تمام دیہات کے لیے یونٹوں کا ایک کوٹہ ہر ماہ مقرر کر دیا جا تا ہے۔ فرض کیجئے آٹھ یا دس دیہات کے لیے ایک لاکھ یونٹ کا کوٹہ مقرر کیا گیا ہے تو محکمہ برقیات کے ملازمین ہر ماہ کے پہلے پندرہ روز تک ان دیہات کے لیے12 سے15گھنٹے لوڈشیڈنگ کرتے ہیں۔ لیکن آخری دو ہفتوں میں لوڈشیڈنگ 24گھنٹے روزانہ کی جاتی ہے اور دیہات کے تمام فیڈروں کی یہی صورت ہے ۔ محکمہ برقیات کے ملازمین کو پابند کیا جاتا ہے کہ ہر ایک فیڈر سے بجلی استعمال کرنے کے جو یونٹ مقرر کئے جاتے ہیں اس سے تجاوزہرگز نہ کریں۔ مذکورہ دیہات پر متعین عملہ کوشش کرتا ہے کہ مقررہ یونٹ میں سے بھی کچھ یونٹ کی بچت کی جائے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ غیرممالک میں 110واٹ پر ملک کا تمام کاروبار چلتا ہے لیکن برصغیر میں 220واٹ پر کارو بارِ حیات کا انحصار ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کی حکومتوں کی آمدنی کے چار عدد بڑے ذرائع ہوتے ہیں،۔انڈسٹریل پیداوار2۔زرعی پیداوار3۔ مذکورہ بالا دونوں ذرائع پیداوار پر مبنی ایکسپورٹ اور نمبر4۔عوام الناس پر اور ملازمین کی تنخواہوں پر عائد کردہ ٹیکس۔پاکستان میں موبائل ٹیلیفون کی سموں پر بھی تقریباً 30فیصد ٹیکس عائد ہے۔ علاوہ ازیں مختلف ناموں سے بے شمار ٹیکس بالواسطہ اور بلا واسطہ عائد ہیں۔ ٹیکسوں کے ایسے بوجھ میں عوام کا زندہ رہنا مشکل ہو چکا ہے۔ اس پر بھی طرہ یہ کہ شہروں میں ٹیکس کولیکشن کے لیے جو ٹھیکہ کسی کو دیا جاتاہے ۔ گورنمنٹ کی جانب سے ٹیکسوں کی فہرست اور مقرر کردہ ریٹ بھی ٹھیکیدار کو فراہم کئے جاتے ہیں۔ٹھیکیداروں نے ٹیکس کولیکشن کے لیے بدمعاش بھرتی کیے ہوتے ہیں جو گورنمنٹ کے مہیا کردہ ٹیکس سے دوگنا تین گناریٹ کی فہرستیں کمپیوٹروں سے نکال کر جس جس سے سائن بورڈ، تھڑا ٹیکس وغیرہ وصول کرنا ہوتا ہے اُن کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور جو فہرست اُن کے پاس ہوتی ہے باوجود کوشش کے بھی وہ کسی ٹیکس دہندہ کو فراہم نہیں کرتے۔ اس طرح لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ خاص طور پر پرائیویٹ تعلیمی ادارے، دکاندار اور دیگر کاروباری حضرات حکومت ِ پاکستان کے لیے بددعا کئے بغیر نہیں رہتے۔ دوسری جانب لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مذکورہ مظلومین جنریٹر چلانے کے لیے بھی اخراجات کرتے ہیں۔ اور بعض پٹرول پمپوں والے جنریٹروں کے لیے گیلنوں میںڈیزل و پٹرول دینے سے انکاری ہیں اس طرح بعض شہروں میں دفاتر، دکانیں دیگر کاروباری حضرات اور گھروں کے مالکان نے جنریٹر پاس ہوتے ہوئے بھی بند کررکھے ہیں۔ راقم قارئین کو ٹیکسوں کے بارے آگاہ کر رہا ہے۔ جب کہ ملک کی انڈسٹری توانائی بحران کا شکار ہونے کے سبب پیداوار ہی نہیں کر رہی اور زراعت بھی قدرتی آفات کا شکار ہے تو ایکسپورٹ کیا اشیاء (Commodities)کی جائیں۔ سوائے ٹیکسوں کے حکومت کا ذریعہ آمدن ہی کوئی نہیں۔ بحران سے نمٹنے کے لیے فیصل آباد کے ٹیکسٹائل مالکان نے بنگلہ دیش حکومت سے رابطہ کیا تھا۔ بنگلہ دیش حکومت نے ملز مالکان کو پانچ سال تک ٹیکس کے لیے چھوٹ دے دی تھی۔ لیکن دیگر شرائط میںخاص طور پر دو چیزیں ملز مالکان کے لیے ناقابل برداشت تھیں ایک بنگلہ دیش نے شرط یہ رکھی کہ ملز میں کام کرنے والے مزدوروں سے منیجر تک سب بنگلہ دیشی ہونگے دوسر ا یہ کہ سال بھر میں پاکستان منافع وغیرہ ارسال کرنے کی ایک حد مقرر کر دی تھی۔ چنانچہ بنگلہ دیشی عملہ ا پنی مرضی سے کام کرتا نہ کرتا۔ آخر بے چارے ٹیکسٹائل ملز والے نقصان برداشت کرکے ڈھاکہ چھوڑ کر واپس پاکستان آگئے اور بنگلہ دیش کو مفت میں بنابنایا سیٹ اپ مل گیا۔ حکومت پاکستان نے اس بارے بنگلہ دیش حکومت سے رابطہ تک نہیں کیا۔ مظلومین ملز مالکان نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ ان بچاروں کا کوئی کاروبار ہے یا نہیں لیکن وہ بھی ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہیں۔ توانائی میں دوسرا فیکٹر گیس کا ہے۔ ملتان میں کھاد کی ایک فیکٹری میں قدرتی گیس سے کھاد تیار کی جاتی تھی جس میں ہزاروں کارکن کام کرتے تھے اس فیکٹری کو گیس کی سپلائی بند کر دی گئی۔ علاوہ ازیں ملک بھر میں جو انڈسٹریز قدرتی گیس کے ذریعے چلائی جا رہی تھیں ان کے لیے بھی گیس بند کر دی گئی ۔ ملک کی منصوبہ بندی کا عالم یہ ہے کہ صدر مشرف کے زمانے میں عوام الناس کو قدرتی گیس کے ذریعے بسیں، ویگنیں اور ہلکی ٹرانسپورٹ چلانے کے لیے اپنی گاڑیوں میں گیس کی کِٹیں لگوانے پر زورو شور سے راغب کیا گیا اور ملک بھر میں بے شمار CNGسٹیشنز بھی قائم ہو گئے۔ لیکن پنجاب میں خاص طور پر بسوں ویگنوں وغیرہ کو سلنڈرز کی سپلائی اور پنجاب بھر کے تمام سی این جی اسٹیشنز پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ حالانکہ ملک بھر کے دیگر صوبہ جات اور علاقوں میں سی این جی اسٹیشنز کام کر رہے ہیں۔ پنجاب کا قصور یہ ہے کہ پنجاب کی آبادی ملک کے دیگر صوبہ جات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ حکومت ِپاکستان کے اربابِ بست و کشاد نے کبھی اس بارے میںسوچا ہی نہیں کہ تحریک ِ پاکستان سے تعمیر ِپاکستان تک پنجاب کا کردار نہایت ہی اہم رہا ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں میںجس طرح بجلی چوری ہو رہی ہے اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ٹیکس دے تو پنجاب، گیس، بجلی اور پانی کے تمام بلز ادا کرے تو پنجاب ۔ اور توانائی سے محروم بھی رہے تو پنجاب۔حالانکہ پنجاب کی انڈسٹری اور زراعت پورے ملک کو پیداوار مہیا کرتی ہے بلکہ گندم اور آٹا تو افغانستان کے لیے بھی پشاور سے سمگل کیا جاتا ہے۔ آئل اور گھی انڈیا اور افغانستان دونوں ممالک کے لیے سمگل کیا جا رہا ہے۔ تقریباً چالیس لاکھ افغان مہاجرین بھی پاکستان کی پیدا کردہ اجناس کھا رہے ہیں۔ ان حالات میں ملک کے لیے اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں بہت ہی بڑھ گئی ہیں۔حکومتِ پاکستان دعویٰ کر رہی ہے کہ توانائی بحران پر 2018ء تک قابو پا لیا جائے گالیکن حکومت مخالف دھرنا سیاست والے گروپس اب پھر دھرنا دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایسے حضرات نہ جانے کن خفیہ ہاتھوں کی انگلیوں پر ناچ رہے ہیں۔ہماری فارن پالیسی پہلے ہی ناکام ہے اس کو مزید ناکام بنانے کے لیے غیر ممالک میں ہندوسوداگر(Actively)کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کا چاول دنیا کا بہترین چاول ہے، ہندوسوداگر غیر ممالک کی منڈیوں اور ایمپورٹرز سے پورا مال اٹھا کر انڈین بار دانے میں بند کر کے بطور انڈین چاول فروخت کر رہے ہیں اور انڈیا سے ناقص قسم کا چاول سستے داموں ایمپورٹ کر کے پاکستان کا جعلی باردانہ تیار کر کے اس میں بند کر کے فروخت کر رہے ہیں جس کے سبب غیر ممالک کے عوام پاکستانی چاول استعمال کرنے کی بجائے مذکورہ بالا انڈین چاول استعمال کر رہے ہیں۔ سفارت خانوں میں ملک کی برآمدات اور ملک کی نیک نامی کے لیے بالکل کوئی کام نہیں ہو رہا۔ وہ لوگ فارغ بیٹھے تنخواہیں اور اور ٹائم لے رہے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ جب انڈین وزیراعظم نہرو نے وفات پائی تو اس کے لیے مصر میں قرآن خوانیاں ہوئیں، غائبانہ جنازے پڑھے گے اور مصری جھنڈا سات روز کے لیے سرنگوں رہا۔ قارئین اس سے ہی اندازہ کر لیں کہ ہم سفارتی سطح پر دنیا بھر میں کتنے کامیاب ہیں؟