9 جون کو راولپنڈی میں ”عالمی میلاد کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے انکشاف کِیا تھا کہ ”مجھے حضرت داتا گنج بخش سید علی ہجویری“ نے "On Deputation" لاہور سے وفاقی وزیر خزانہ بنا کر اسلام آباد بھجوایا ہے“ ڈار صاحب کے اِس بیان پر مجھے بہت خوشی ہوئی تھی اور مَیں نے اپنے کالم میں اِس کا تذکرہ بھی کِیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ ”جِس طرح لاہور میں حضرت داتا صاحب کے دربار سے ہر وقت غریبوں کو مُفت کھانا مِلتا ہے، جنابِ ڈار پورے مُلک میں غریبوں کو مفت کھانا فراہم کرنے کے لئے ہر شہر اور گاﺅں میں لنگر خانے جاری کردیں گے“۔
جنابِ ڈار نے کمر باندھ لی؟
نئے مالی سال کے بجٹ کی آمد آمد ہے لیکن فی الحال کسی بھی شہر / گاﺅں میں بقولِ جنابِ ڈار حضرت داتا صاحب کے "Depute" کئے گئے وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے اِس طرح کا انتظام نہیں کِیا گیا لیکن 17 مئی کو اخبارات میں چھپی ایک چھوٹی سی خبر کے مطابق ”جنابِ ڈار نے پاکستان سے غُربت کے خاتمے کے لئے کمر باندھ لی ہے“ مَیں نے لڑکپن میں پانچویں جماعت کی نصابی کِتاب میں یہ شعر پڑھا تھا ....
اٹھ باندھ کمر، کیا ڈرتا ہے؟
پھر دیکھ خُدا کیا کرتا ہے
ممکن ہے جنابِ ڈار تک یہ شعر اب پہنچا ہو بہرحال دیر آید درست آید مَیں نے ”کمر“ کے بارے میں حضرت امیر مینائی کا یہ شعر جوانی میں پڑھا تھا ....
ٹُوٹ جاتی ہے کمر، صبر و شیکبائی کی
راہ لیتے ہیں قدم، کُوچہ¿ رسوائی کی
ڈار صاحب کی "On Deputation" وزارتِ خزانہ کی طرف سے لنگر خانے نہ کھلنے سے بھوکوں کی ”صبر وشیکبائی کی کمر“ ٹوٹنے کو ہی تھی لیکن اِس سے قبل کہ اُن کے قدم کُوچہ¿ رُسوائی کی راہ لیتے، ڈار صاحب کی طرف سے ”غُربت کے خاتمے“ کے لئے ایک پروگرام سامنے آگیا ہے۔ خبر ہے کہ ”غُربت کے خاتمے کے لئے نئے مالی سال کے بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے کچھ مزید رقوم مختص کردی گئی ہیں۔“ یاد رہے کہ جنابِ آصف زرداری کے ”سنہری دَور“ میں بے نظیر چند ہزار بیواﺅں اور دوسری غریب عورتوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ امداد مِلتی تھی خبر میں کہا گیا ہے کہ ”اب مزید خواتین کو یہ امداد مِلا کرے گی“ کیا ہی اچھا ہو کہ حضرت داتا صاحب ڈار صاحب کو ترقی دے کر "World Bank" بھجوا دیں۔
”حکیمِ حاذق“ نوِید مُختار؟
علّامہ اقبال نے اپنے دَور کے اہلِ عقل کے بارے میں کہا تھا....
عقل عیاّر ہے، سو بھیس بنا لیتی ہے
عِشق بے چارہ، نہ زاہد ہے نہ مُلاّ نہ حکیم
دَورِ حاضر میں سیاستدان/ عقل کی علامت ہیں اور عوام عِشق کی ”خدائے سُخن“ کہلانے والے میر تقی میر کا دَور سیاسی جماعتوں کا دَور نہیں تھا لیکن اُن کا یہ شعر آج کے دَور پر بھی صادق آتا ہے ....
مِیر کیا سادہ ہیں بیمار ہُوئے جِس کے سبب
اُسی عطّار کے لونڈے سے دَوا لیتے ہیں
مختلف ناموں سے ”حکیم اُلّامت“ ہونے کے دعویدارعطّار ہائے سیاست کی دُکانیں کُھلی ہیں اور اُن کے باہر روٹی کپڑا اور مکان کے امراض میں مُبتلا لوگوںکا ہجوم عطّاری کی دُکانیں بھی نسل در نسل چلتی تھیں، سیاست کی دُکانیں بھی نسل در نسل چلتی ہیں اور آئندہ بھی چلتی رہیں گی، جب تک اُن پر قُدرت کا غضب نازل نہ ہو جائے۔16 مئی کو کراچی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سیمینار میں سویلین لباس میں ملبوس کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کا خطاب "Academic Discussion" تھا یا وارننگ؟
کیا نوید مختار صاحب نے ”حکیمِ حاذق“ ( ماہر اور کامل طبیب) کے طور پر کراچی کو مثال بنا کر پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے امراض کی تشخیص کے بعد مع ترکیبِ استعمال "Surgery" (عمل جراحی) کو ہی آخری علاج قرار دِیا ہے۔ اپنے خطاب میں کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے دہشت گردی کے کئی بُت توڑنے کی ”نوید“ تو دی ہے لیکن یہ بھی بتایا کہ ”کراچی میں منشیات فروشوں سے لے کر القاعدہ تک کے ڈیرے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں اور دہشت گردی میں فرق ختم ہوگیا ہے۔ سیاسی اور انتظامی نا اہلی سے مسائل پیدا ہُوئے“ پھر ماہر سرجن کے انداز میں انہوں نے کہا کہ ”متوازی حکومتوں اور طاقت کے مراکز "White Collar" دہشت گردوں اور اُن کے معاونین کا خاتمہ کرنا ہوگا“
حکیم حاذق نوید مختار کا مع ترکیبِ استعمال نُسخہ یہ ہے کہ ”پولیس اور انتظامیہ کو آزاد ہونے کی ضرورت ہے“ لیکن کیسے؟ جب سیاسی سرگرمیوں اور دہشت گردی میں فرق ختم ہوگیا ہو، جب تک کوئی ( نہ جانے کون؟) یہ فرق ختم نہ کردے تو پولیس اور انتظامیہ (جِس کو نااہلی کا سرٹیفکیٹ بھی دے دِیا گیا ہے ) آزاد کیسے ہو جائے گی؟ وزیراعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ اور گورنر ڈاکٹر عشرت اُلعباد، صدر آصف علی زرداری کے ”سنہری دَور“ میں بھی نا اہل تھے اور وزیراعظم نواز شریف کی ”مفاہمتی سیاست“ کے دَور میں بھی اگر ”حکیم حاذق“ نوید مختار کا خیال ہے کہ سیّد قائم علی شاہ کے نام کا خطبہ پڑھتے ہوئے ایم کیو ایم کی طرف سے اعلانِ لاتعلقی کے بعد بھی ڈاکٹر عشرت اُلعباد کی مسکراہٹوں سے کراچی میں ”منشیات فروشوں اور القاعدہ کے ڈیرے“ ختم کئے جاسکتے ہیں تو وفاقی وزیر داخلہ کو بھی انعام و اکرام سے نوازا جائے، جو یہی رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ ”وزیراعلیٰ سندھ سے استعفیٰ طلب کرنے کا مطالبہ درست نہیں ہے“
اگرچہ یہ بات کور کمانڈر کراچی کے اختیار میں نہیں ہے لیکن کوئی نہ کوئی تو چودھری نثار علی خان سے ضرور پوچھے کہ آپریشن ضرب العضب شروع ہونے کے بعد انہوں نے اور اُن کے ماتحت خفیہ ایجنسیوں نے طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کے ”سہولت کاروں“ کے خلاف کیا کارروائی کی؟ کور کمانڈر کراچی نے ریاستِ پاکستان کے "Stakeholders" کی بات کی ہے محض یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ ”9 ستمبر 2013ءکو اسلام آباد میںمنعقدہ آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی) میں دہشت گرد طالبان کو ”ہمارے اپنے لوگ “ اور ”ریاستِ پاکستان کے سٹیک ہولڈرز“ کہا تھا اور 15 فروری 2014ءکو ”طالبان کے باپ“ کہلانے والے مولانا سمیع الحق کی صدارت میں لاہور میں 32 مذہبی جماعتوں اور200 جیّد عُلمائ“ کے اجلاس میں طالبان کو ”پاکستان کے بیٹے“ کہا گیا تھا۔ اُن 32 مذہبی جماعتوں کے راہنماﺅں اور 200 جیّد عُلمائ“ اور مولانا سمیع الحق کا مو¿قف اب کیا ہے؟
دہشت گردی صِرف کراچی کا مسئلہ نہیں ہے پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ پورے پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں اور دہشت گردی میں فرق ختم کرنا ہوگا۔ ہر قسم کا مافیا پورے پاکستان میں موجود ہے لیکن ظاہر ہے کہ پاک فوج، رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی آئینی اور قانونی حدود ہیں۔ اِس کے باوجود اگر حکیم حاذق نوید مختار کراچی کی حد تک فوج اور رینجرز کی پوری طاقت سے (نہ جانے کیسے؟) وائٹ کالرز دہشت گردوں اور اُن کے معاونین کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو دوسرے صوبوں میں بھی اُس کے مثبت اثرات ہونگے۔