حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ دنیا میں سب سے مشکل کام اپنی اصلاح کرنا اور سب سے آسان کام دوسروں پر تنقید کرنا ہے۔ یقین جانئے جس خوبصورتی کے ساتھ ہمارا معاشرہ اس قول کی منظر کشی کرتا نظر آتا ہے اسکی زندہ مثال دنیا کا شاید ہی کوئی اور معاشرہ پیش کر سکے۔ انتہائی افسوس کیساتھ عرض کروں یہ کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ یہ ایک ایسا کینسر ہے جو اندر ہی اندر سے ہمیں کھوکھلا کر رہا ہے اور اگر ہم نے اسکا کوئی تدارک نہ سوچا تو خاکم بدہن وہ دن دور نہیں ہوگا جس دن ہماری بقاء ہمارے لئے سوالیہ نشان بن جائیگی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ حقائق جانے بغیر ہم اس سمت دوڑ پڑتے ہیں جسطرف ہمیں کوئی لگاتا ہے عدم تحقیق کا یہ رجحان ہماری بہت بڑی کمزوری ثابت ہوا ہے جسکا ہمارے دشمنوں نے بڑا صحیح فائدہ اْٹھایا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آزادی کے پنسٹھ سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے دکھائی دیتے ہیں جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو بغیر کسی تعصب کے یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ 1960 کی دہائی کا اوائل وہ پیریڈ ہے جسے صنعتی ترقی کے اعتبار سے سنہرا دور کہا جا سکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں اگر صنعتی ترقی کا پہیہ اسی رفتار کیساتھ گھومتا رہتا تو اْسی دہائی میں پاکستان کا شمار انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہو جانا تھا لیکن یہ بات ہمارے دشمنوں کو کیسے اچھی لگ سکتی تھی لہذا ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت پہلے اْنھوں نے حالات کو ایسے دھارے پر ڈالا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کو ناگزیر بنا دیا گیاجسکا حاصلِ مقصد یہ تھا کہ جنگ ہارنے کی وجہ سے جو کہ بظاہر یقینی نظر ا رہی تھی بد دلی اور مایوسی اس قوم میں کچھ اسطرح پھیلا دی جائے کہ وہ اپنا اصل ہدف بھول جائیں۔ خدا کی قدرت پاک فوج کی بیمثال قربانیوں اور عوام کے جذبہ استقلال کی بدولت جب دشمن اپنے ان عزائم میں ناکام ہوا تو اس نے سوچا کہ پاکستان کی ترقی کو روکنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ پاکستانی عوام کی سوچ کو ہی یرغمال بنا لیا جائے۔ اس تناظر میں بیشک بھٹو کا ایوب حکومت سے علیحدہ ہونا بھٹو کا اپنا فیصلہ اور جائز حق تھا لیکن جسطرح اور جس سطح پر اعلانِ تاشقند کا شوشہ چھوڑا گیا وہ اپنے اندر بیشمار سوالات سمیٹے ہوئے ہے۔ اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ اس احتجاج کے نتیجے میں ہماری وہ معیشت جو دنیا کی تیز رفتار ترقی کرتی نظر ا رہی تھی ایسے ریورس گیئر میں پڑی کہ ہم پھر اسی مقام پر آ گئے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا۔ اس سفر کا اگلا پڑاو ہمیں اس وقت نظر آتا ہے جب ذولفقار علی بھٹو کیخلاف نظامِ مصطفی کی تحریک شروع کروائی گئی۔ بغیر کسی بغض کے یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑیگی کہ یہ سارا پروگرام بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی پاداش میں سزا دینے کیلئے ترتیب دیا گیایہ ماننا پڑیگا کہ اسلامی بلاک کا جو تصور وہ لیکر چل پڑا تھا اس مرحلے پر اگر اسکا راستہ نہ روکا جاتا تو پاکستان اپنی منزل تو حاصل کرتا ہی کرتا عالمِ اسلام بھی آج ان تاریکیوں سے نکلا ہوتا جن میں آج وہ بھٹک رہا ہے۔ بات ہو رہی تھی کہ جب بھی ہمارا ملک ترقی کرنے کے دھانے پر پہنچتا ہے ہمیں ایک ایسے شوشے کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے جہاں ہم بغیر سوچے سمجھے کہ اس مشقت کے نتیجے میں کیا ہم کوئی مثبت نتائج حاصل کر بھی پائیں گے یا جو پہلے حاصل ہے اسے بھی گنوا دیں گے پھڑ لو پھڑ لو شروع کر دیتے ہیں۔
کچھ اسی قسم کا ایک تماشہ پچھلے گذشتہ سے پیوستہ سال اس وقت دیکھنے کو ملا جب پچھلی ایک دہائی کی مشقت کے بعد اس ملک میں جیسے ہی ضربِ عضب کی کامیابی کے صلے میں اس قوم کا مورال ابھی ٹیک آف لینے والا ہی تھا کہ کچھ مخصوص حلقوں نے ملکی حالات کو اسطرح انجینرڈ کیا کہ ملک کا پورا نظام جمود کا شکار نظر انے لگا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ لگتا تھا کہ شاید یادِ ماضی ایک دفعہ پھر اس قوم کا مقدر ٹھہرنے جا رہی ہے لیکن آفرین سالارِاعلیٰ کو جس نے اعلی ظرفی کا ثبوت دیکر نہ صرف اپنے دامن کو بچا لیا بلکہ اس ملک کو ایک دفعہ پھر اندھیروں میں جانے سے بچا لیا لیکن از حد افسوس کیا کیا جائے ان مہم جوئوں کا جنکی منشور ہی اس ملک میں مایوسی پھیلانا اور دوسروں کی ذات کو ہدفِ تنقید بنانا ہے۔ کچھ اسطرح کا شوق پانامہ لیکس کی آڑ میں آجکل پھر اپنے عروج پر ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو خود کمر تک اس گند میں پھنسے ہوئے ہیں وہ بھی اپنے اپ کو پارسا اور دوسروں کو پاپی گردانے کا راگ الاپ رہے ہیں سنجیدگی سے دیکھیں تو اگر اس پانامہ لیکس نے کئی چہروں کے پاجامے یا پیمپر لیکس کئے ہیں۔یہاں تک کہ وہ جو ایک دوسرے میں ٹیکنیکل فالٹ ڈھونڈتے تھے آج ایک دوسرے کے آئیڈیل اور شہزادے بنے بیٹھے ہیں۔ ہماری سیاسی ناپختگی اور دیوالیہ پن کی انتہا دیکھیں کہ پچھلے ڈیڑھ مہینے سے اس پانامہ لیکس کے سیاپے کے علاوہ ہم نے قومی اہمیت کے کسی ایک ایشو پر بات کی ہو۔ ہماری انٹیلی جنس نے را کے کتنے بڑے نیٹ ورک کو پکڑا ہے ہمارے وہ اکابرین جن میں سیاسی اور ہمارے میڈیا سے بھی جنکا تعلق ہے اور جو اپنے اپ کو پاکستان کا سقراط سمجھتے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس انتہائی اہم کامیابی کو قوم کے سامنے پیش کیا ہے اور کتنوں نے عالمی برادری کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوئی مخلصانہ کوشش کی ہے۔ اس عرصے میں کیا ہم نے ضرب عضب کی کامیابیوں پر بات کی ہے۔ ہم اندھیروں کے راہیوں نے ان دنوں کبھی اس پر بات کی ہے کہ قومی اہمیت کے اس وقت کے سب سے اہم منصوبے جسکی مخالفت میں ہمارے دشمنوں نے کمر کس لی ہے اسکو کیا خطرات درپیش ہیں۔ مشرق وسطی میں جو مالی بحران پیدا ہو چکا اسکی وجہ سے ہماری افرادی قوت اور ملین ڈالرز کے زرمبادلہ کی عدم ترسیل کی وجہ سے جس بحران کا ہم سامنا کرنے کو ہیں اسکے متعلق کوئی سوچ رہا ہے۔ نہیں۔ تو پھر ایسا کیوں۔ دوستو اس لئے کہ ہمارے ہاں سیاست میں اختلاف نہیں عداوت کا رواج ہے ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ…ع
پْتر پانویں مر جاوے پر نوں نو رنڈیا تکنا اے
اختلاف یا عداوت
May 18, 2016