میری طرح آپ بھی کچھ انسانوں کو بغیر کسی وجہ کے پسند نہیں کرتے ہونگے اور کچھ لوگ خواہ مخواہ آپ کو بھی پسند ہونگے۔ رضا ربانی حالانکہ پیپلز پارٹی کے اور اتنے بڑے اہم منصب پہ فائز ہونیوالے دنیا کے پہلے ’’پونی‘‘ رکھنے والے بزرگ ہیں۔ پہلی دفعہ کسی کے بتانے اور خود دیکھنے کے باوجود یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ مفاہمتی، مصالحتی بلکہ شراکتی دور کی دوراندیشی کے تناظر میں چیئرمینی لینے والے کی سیاست کاری، سب پہ بھاری ثابت ہو گئی۔ رضا ربانی کی متانت، سنجیدگی اور بالیدگی انکی جوشیلی اور جذباتی تقریر کرنے سے پہلے تک قائم رہتی ہے۔نجانے آجکل ہمارے اداروں کے سربراہوں کے خیالات و نظریات میں کیا تلاطم خیزی کھلبلی کی حد تک سرایت کر گئی ہے کہ بیان کی حد تک وہ ایسے بیانات داغتے ہیں کہ دوسروں کو بے دریغ بے عمل ثابت کر دیتے ہیں۔ خصوصاً منصفین کو عدالتوں میں جہاں مقدمات زیر بحث و سماعت ہوتے ہیں۔ ان کو کسی قسم کے ریمارکس سے اجتناب کرنا چاہئے تاکہ غیر جانبداری کو برقرار رکھا جا سکے۔ کیونکہ اگر فیصلوں اور خیالات میں مطابقت نہ ہو پائے تو بہت سے سوالات جنم لیے ہیں کمیشن اور تحقیقات پر اسلامی نظام عدل میں برسوں نہیں لگتے۔ پہلو تہی فرائض سے فرارکے مترادف بن جاتی ہے۔ جسٹس سید مظفر شاہ جنہوں نے مستقبل قریب میں انشاء اللہ چیف جسٹس ہائیکورٹ (لاہور) کا منصب سنبھالنا ہے۔ انہوں نے انتہائی مثبت بات کی ہے کہ مقدمات کی طوالت، فیصلوں میں تاخیر، انصاف و عدل کی آبیاری اور دہلیز تک ثمرات پہنچانے میں رکاوٹ ہے۔پچھلے دنوں بدعنوانی کیخلاف وقتی جوش و ابال میں فریال کا نام آیا ڈاکٹر عاصم کا جال را تک پھیلا ہوا نکلا اور اربوں روپے کی بدعنوانی اقبالی جرم بن کر سامنے آئی۔ تو رضا ربانی بول اٹھے کہ احتساب کے نظام میں کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہئے اور اگر سسٹم سے کرپشن ختم کرنی ہے تو پارلیمان کی سفارشات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رضا ربانی نے جب اپنے منصب کا حلف اٹھایا تھا تو اس میں اپنے ملک سے وفاداری اور وطن کا مفاد ہر چیز پر مقدم رکھنے کی بات بھی ضرور شامل ہو گی اور سیاسی وفاداریوں سے بالاتر ہو کر چاروں صوبوں کی نمائندگی کرنے والی قانون ساز سینٹ کے سربراہ کو غیر جانبدارانہ طرز عمل اپنانے کی قسم کھانے کی شہادتیں بھی موجود ہوں گی۔ دراصل اس وقت ربانی صاحب کے دل میں یہ دھڑکا تھا کہ فوج یکطرفہ راہِ عمل پر چل پڑی ہے اور وہ فوج کے احتساب کی باتیں کرنے لگے تھے۔ مگر اب شاید فوج سے بدعنوان جرنیلوں کے احتساب کے بعد شرار و اشتعال مدھم پڑ گیا ہو گا۔ ربانی صاحب نے مختلف موقعوں پر اپنی ذمہ داریوں کو خوبصورتی سے منتقل کر دیا۔ مگر حال ہی میں بڑی شان سے اپنے وطن پہ مطیع الرحمن نے قربان ہو کر اور رحم کی اپیل بھی نہ کرکے جو تاریخ رقم کی ہے، وہ ملک کی پارلیمان کے ارکان اور ہر سیاستدان کیلئے قابل تقلید ہے مگر رضا ربانی کے اس طرز عمل کو کیا کہئے گا جو انہوں نے شہادتِ مطیع الرحمن کے بارے میں اپنایا ہے۔ پچھلے سینٹ کے ایوان کے اجلاس میں مطیع الرحمن اور دوسرے بنگالی جماعتِ اسلامی کے رہنمائوں کی پھانسیوں کی مذمت اور عالمی اداروں کی بے حسی پر زوردار بحث ہوئی۔ سرتاج عزیز نے بتایا کہ پاکستان نے بنگلہ دیش کے سفیر کو طلب کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان 1974ء میں جنگی قیدیوں کی سزائیں نہ دینے کا معاہدہ ہوا تھا۔ سراج الحق اور نہال ہاشمی کی تحریک التوا پر چیئرمین سینٹ نے فرمایا کہ یہ کسی دوسرے ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ احتجاج کے باوجود انہوں نے تحریک التوا پیش نہیں ہونے دی۔ سنیٹر چودھری تنویر، سنیٹر قیوم، سنیٹر مشاہداللہ، راجہ ظفرالحق وغیرہ نے اس بے حسی پر ضمیر جگانے کی بھرپور کوشش کی۔ سراج الحق نے ترکی، کویت، عمان قطر کا شکریہ ادا کیا مگر رضا ربانی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھانسیوں کی حمایت دنیا کے صرف ایک ملک بھارت نے کی ہے اور میں سوچتا چلا گیا کہ را کا اثر و رسوخ عالمگیریت کا رخ اختیار کر گیا ہے۔چیئرمین کو اگر حضورؐ کے اس فرمان پر مسلمان آپس میں بھائی بھائی اور جسم کا حصہ ہیں۔ عمل کرنے کی کی توفیق نہیں ہوئی تو اپنے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے دنیا کے تمام مسلمان سربراہان کو اکٹھا کر دیا تھا مگر اب اینٹ سے بچانے کی باتوں پر نواز شریف نے مثبت جواب نہ دیا تو پھر مفاہمتی عمل بے عمل کرکے اعتزاز احسن کو تاریخ دہرانے کیلئے ڈرائیور بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ مالک گوشہ نشینی میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ بے لاگ تبصرہ کرنا اور کلمہ حق کہنا توفیق خداوندی ہے۔ سچ سننا اور بولنا بھی سنت نبویؐ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو تو ہنری کسنجر اور اسکے آقا کیخلاف دھمکیوں کے باوجود ڈٹ گئے تھے۔ باقی کارکنوں کو میرے دوست نسیم صدیقی کے ان خوبصورت اشعار پہ جو انہوں نے ذوالفقار بھٹو کی شہادت پہ لکھے تھے ضرور سر دھننا چاہئے…؎
جراتوں کی کچھ نہ کچھ تقلید ہی کرتے رہو
ظلمت ماحول کی تردید ہی کرتے رہو
دار پہ چڑھنا نہیں آتا تو یارو نہ سہی
دار والوں کی فقط تائید ہی کرتے رہو
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے۔ مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کی بددعا شعلے کی طرح آسمان پر جاتی ہے اور ملک کی بقا کفر سے ممکن ہے مگر ظلم سے نہیں۔ حسینہ واجد حضرت علیؓ کے اس فرمان کے مطابق ہی اپنے انجام کو پہنچے گی۔ ویسے بھی بھاشانی کے ملک میں اتنی دیر تک امن قائم نہیں رہ سکتا۔