جدید ٹیکنالوجی کتب بینی میں کمی کی وجہ؟

May 18, 2017

عتیق چودھری

زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں، جو قومیں کتاب سے رشتہ توڑ لیں تو وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں، جن کا تعلق کتاب اورعلم سے مضبوط رہا ہو۔ قوموں کی زندگی کا عمل کتاب سے جڑا ہوا ہے۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی رک جاتا ہے۔ کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفرہوتی ہے۔ کتاب کی اس ابدی اہمیت کے زیر نظر زندہ قوموں کا شعار، بلکہ فطرت ثانیہ ہوتی ہے کہ وہ کتب خانوں کو بڑی قدرومنزلت دیتے ہیں۔فرانس کے انقلابی دانشوروالٹیر نے کہا تھا ”تاریخ انسانی میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کرکتابوں ہی نے لوگوں پر حکومت کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جس قوم کی قیادت اپنے عوام کو کتابیں پڑھنا اور ان سے محبت کرنا سکھا دیتی ہے، وہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے۔“ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ گذشتہ کچھ دہائیوں سے کتب بینی سے دور ہوتا جارہا ہے۔ تجزیہ کارپاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی، صارفین کی کم قوت خرید، حصول معلومات کے لئے موبائل، انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال، ڈیجیٹل انفارمیشن کی ترویج، کمرشلائزیشن، تیزرفتار طرز زندگی، اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان، حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کے لئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ملٹن کا کہنا تھا ”ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے۔ اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح سے روشناس کرانا ہے۔“کتاب انسان کے حاصل کردہ علم کی منظم و مرتب صورت، اسکے افکار وخیالات کامجسمہ، اسے فروغ دینے کا لاثانی وسیلہ ہے۔ابلاغیات اور رائے عامہ کو ہموار کرنے لئے کتاب بہترین ذریعہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جہاں سماجی برائیاں معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہی ہیں۔ کیا ادب اور شاعری کو موثر بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؟دہشت گردی اور انتہاپسندی نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کی بہادر افواج اور سیکیورٹی فورسز ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے ہمہ تن کوشاں ہیں۔ سانحہ پشاور کے دلسوز واقعہ کے بعد 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایاگیا تھا جس کا اہم نقطہ نظریاتی لحاظ سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے، وزیراعظم پاکستان نے بھی ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف متبادل بیانیہ پر زور دیا۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کے نظریاتی اور فکری محاذپر اس کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت معیاری ادب کے فروغ پر خصوصی توجہ دے۔ ادیبوں، شاعروں اور مصنفین کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف متبادل بیانیہ کتابوں کے ذریعے فروغ دیاجائے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کی آمد، لائبریریوں کے ابتر حالات اور حکومتی عدم توجہ کے باعث کتاب کلچر تیزی سے ختم ہورہاہے جس کی گواہی ملک بھر میں پانچ ہزار کے قریب لائبریریوں میں قارئین کی منتظر خالی کرسیاں اور عرصے سے کتابوں کی بند الماریاں دے رہی ہیں۔ملک بھر کی لائبریریوں میں نہ تو اچھی کتابیں دستیاب ہیں اور نہ ہی ٹرینڈ سٹاف۔ ملک میں موجود ناقص تعلیمی نظام کی وجہ سے طالب علم صرف ٹیکسٹ بکس اور نوٹس تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ ملک میں جو تھوڑی بہت کتابیں چھپ رہی ہیں، وہ اس قدر مہنگی ہیں کہ عام آدمی اسکو خرید نہیں سکتا۔ لوگ لائبریریوں میں جانے کی بجائے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔پاکستان میں عالمی معیار کی لائیبرریوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں تحقیق وتصنیف کا معیار بین الاقوامی معیار سے بہت پیچھے ہے۔ ہائیر ایجوکیشن نے اس سلسلے میں کچھ اقدامات کئیے ہیں مگر وہ ناکافی ہیں۔
جو لائبریریاں موجودہیں ان میں جدید ٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔ ملک بھر میں لائبریریوں کیلئے کوئی جدید سافٹ ویئر موجود نہیںجن کی مدد سے عالمی جرنلز اور جدید تحقیق کو پڑھ سکیں۔ لائبریریوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا گیا تو لائبریریاں محض گودام بن جائیں گی۔ عرصہ دراز سے لائبریرین کی آسامیاں پ±ر نہیں کی گئیں جس کے باعث بیشتر لائبریریاں پوری طرح فنکشنل نہیں رہیں۔ قانون کے مطابق لوکل حکومتوں پر لازم ہے بجٹ کا ایک فیصد لائبریری پر خرچ کریں گی مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں مختلف جگہوں پر موجود تقریباََ182 پبلک لائبریریاں بند ہیں۔بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے غیر ملکی کتابیں بہت مہنگی ہیں۔اب کتاب بینی ادراک معرفت اور خودبینی و خدا شناسی کی بجائے محض چندسکوں کے حصول کا ذریعہ بن گئی ہے۔آج سوشل میڈیا ایک دوسرے کے ہم رکاب انسانوں کو مختلف سمتوں کا مسافر بنا رہا ہے۔ایک ہی کمرے میں بیٹھے لوگ مختلف ملکوں کے لوگوں سے ہم کلام ہورہے ہیں۔ ٹوٹ پھوٹ کا عمل تہذیبوں اور معاشروں سے ہوتا ہوا گویااب گھروں کا رخ کر چکا ہے۔نوجوا ن نسل اپنا زیادہ تروقت سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں طالبعلم یونیورسٹی کی لائیبرری میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے کی بجائے کالج، یونیورسٹی کی کینٹین پر بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں ان نوجوانوں کی تعلیمی اداروں میں کونسلنگ نہیںہورہی اس لئے وہ بے مقصدیت کے راستے پر بے ہنگم چل رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کتاب پہلے ہی نایاب تھی اوررہی سہی کسراحساسِ مروت کو کچل دینے والے ان آلات نے پوری کر دی ہے ‘ جنہیں عرف عام میں الیکٹرونک گیجٹ کہتے ہیں۔ہر آدمی کے بڑا بننے کے پیچھے کتابیں بنیادی رول ادا کرتی ہیں۔کتاب ہی سے علم پروان چڑھتا ہے کسی دانا نے خوب کہا ہے کہ ’بغیر کتابوں کے گھر ایسا ہے جیسے بغیر روح کے جسم‘کتاب احساس کا دَر کھولتی ہے۔ جو نوجوان کتاب اٹھا لیتا ہے ‘ وہ بندوق نہیں اٹھائے گا۔بڑے بڑے انقلابات کتابوں کے تعاون سے برپاہوئے ہیں۔ کتاب سے لگاو¿ دراصل علم سے لگاو¿ کی علامت ہے۔
آجکل نئی نسل میں کتب بینی کا رجحان تقریبا ختم ہوتا جا رہا ہے یہ بات مسلمہ ہے کہ نئی نسل اگر دنیا کے بڑے بڑے مفکروں، دانشوروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اپنے اندر وہ خصائل پیدا کرنا چاہتی ہے تو اسے کتب بینی میں دلچسپی لینا ہو گا۔ کتب بینی سے ذہن کے بند دریچے کھل جاتے ہیں دنیا کو اپنی وسیع نظر سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑے بڑے ادیب ہمارے ہم قدم چل رہے ہیں۔دیوار مہربانی کی طرح اگرہر پبلک جگہ پر کتابوں کی ایک الماری رکھ دی جائے اور نوٹس لگا دیا جائے کہ اپنے گھر کی زائد کتابیں ردّی میں نہ بیچیں بلکہ اس لائبریری کیلئے تحفہ دیں۔ یقین جانئے‘کچھ ہی عرصہ میں ہر گلی، محلہ، بازار اور سٹیشن چھوٹی چھوٹی لائبریریوں سے سج جائے گا۔ ہر بڑے کام کاآغاز ایک چھوٹے سے قدم سے ہوتا ہے۔ایک نامور ادیب کی تجویز کیمطابق ملک میں فوڈ سٹریٹس کے ساتھ ساتھ اگر بک سٹریٹس بھی بنائی جائیں تو کتاب سے قاری کا رشتہ ایک بار پھر استوار کیا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں