1982ءمیں عسکری تربیت کیلئے برطانیہ پہنچا تو وہاں پر قیام کے دوران پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متعلق انگریزی میں ڈاکومینٹری ویڈیو ”اسلامک بم“ کا مشاہدہ کیا اور سابق وزیراعظم پاکستان شہید ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے انتظار میں کال کوٹھڑی میں قید کے دوران لکھی گئی کتاب ”if i am assassinated“ کا مطالعہ کیا۔ یہ دونوں پاکستان میں لانا ممنوعہ تھے لہٰذا حسب عادت میں نے ان میں سے نوٹس اپنی ڈائری میں تحریر کئے۔ پاکستان آ کر ان دونوں معاملات پر گہری نظر رکھی اور اپنے تاثرات محفوظ کرتا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ”اگر مجھے قتل کیا گیا“ کے باب 13 میں لکھا ہے۔ ”اب یہ وقت آگیا ہے کہ جنرل نے پاکستان میں جو بحران پیدا کیا ہے اس بات کو کھرے انداز میں واضح کر سکوں۔ خود غرضانہ روئیے اور طرز عمل، جنہمی انتقام نے یہ سارے بحران جنم دیئے ہیں۔ آج پاکستان جن بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے یہ 1971ءکے بحرانوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ خوفناک اور تباہ کن ہیں۔ معروضی طور پر بات کرتے ہوئے کہوں گا کہ اس وقت حقیقی سیاست کے مطابق پانچ پڑوسی ملکوں کا گہرا واسطہ بنتا ہے۔ اگر پاکستان عدم استحکام اور گڑ بڑ کا اس طرح مستقبل میں شکار رہا تو یہ تصور بھی بہت خطرناک ہے کہ ان پانچ ہمسایہ ملکوں میں سے کوئی ایک پاکستان کو اس صورتحال میں مبتلاءدیکھ کر ہڑپ کر جائےگا۔ یہ انتہائی رجائیت پسندی ہو گی کہ یہ پانچوں ممالک لاتعلق بن کر دوسری طرف دیکھنے لگیں گے۔ ان میں سے ہر ایک کی فوجی حکمت عملی اور جغرافیائی سیاسی مفاد کا پاکستان سے تعلق ہے۔ کوئی ملک بھی اسے نظرانداز نہیں کر سکتا۔ ہمارا پیارا ملک ویتنام سے زیادہ تباہ کن میدان جنگ نہیں بن سکتا ہے“۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءاور ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ ٹکراﺅ اور ملک میں انتشار کے ماحول کو سنبھالنے کا حل بھی بحران کی نشاندہی اور تباہی کے امکانات کے انتباہ کے ساتھ پیش کیا ہے لکھتے ہیں: ”وقت کا گجر بج چکا ہے۔ ایک بڑے انتشار اور تباہی کو روکنے کا عظیم چیلنج سامنے آ چکا ہے۔ زبان درازی، گالیاں اور طاقت کا مظاہرہ کے جوابی پیداواری عمل تباہ کن ہونگے وقت سیاسی استحکام کی چیخ و پکار کر رہا ہے۔ بصیرت اور جائز اجماع کا تقاضہ کر رہا ہے۔ فوری تقاضہ اور ضرورت یہ ہے کہ مساوات پر مشتمل ایک جامع سیاسی معاہدہ طے کیا جائے۔ اب وہ لمحہ آ چکا ہے کہ پرسکون اور مخلصانہ مفاہمت کسی حسد و عناد کے بغیر اپنے بھائیوں میں ہو جائے۔ ضروری ہے کہ مارشل لاءکی لعنت اور کالک کا ٹیکہ کسی تاخیر کے بغیر ختم کر دیا جائے“۔
”جون 1977ءمیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں یہ کہا تھا کہ اگر پاکستان کو غیر مستحکم کیا گیا تو ایک عجیب عمودی اور افقی پولرائزیشن جنم لے گی۔ افقی پولرائزیشن سے میری مراد صوبائی عصبیت تھی اور عمودی پولرائزیشن سے میری مراد طبقاتی عصبیت تھی اور یہی کچھ وقوع پذیر ہو چکا ہے“۔
جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا کر پہلی فرصت میں پاکستان کو افغانستان میں روس کے ساتھ الجھا دیا۔ حالانکہ امریکہ نے پاکستان کے علاقائی تحفظ کی مکمل ضمانت دی ہوئی تھی اس کے باوجود پڑوسی ملک انڈیا نے پاکستان کو تباہ کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اگست 1984ءمیں اسرائیل کے اشتراک عمل سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر ناکام حملہ، اندرا گاندھی کا پہلی نومبر 1984ءکو پاکستان پر جنگی حملہ کا منصوبہ 31 اکتوبر 1984ءکو اندرا گاندھی کے قتل کے ساتھ ناتمام ہونا اور 1986ءمیں راجیو گاندھی کا براس ٹیک جنگی مشقوں کے بہانے سرحدوں پر فوج جمع کر کے جنگ کرنے کی تیاریاں اور جنرل ضیاءالحق کی طرف سے جواب میں ایٹمی قوت سے حملہ کی دھمکی کی بدولت جنگ کا مفقود ہونا قوم کو یاد ہے۔ جنرل ضیاءکے دور میں اندرون ملک خلفشار سندھو دیش تحریکیں بھی قوم نہیں بھولی۔ البتہ روس نے مستقبل میں حاصل ہونے والی اپنی عظیم قومی مفادات کے پیش نظر افغانستان کے سرحد پار پاکستان کی سرزمین میں کسی قسم کی مہم جوئی سے احتراز کیا ہے۔ اس لئے آج روس بھی CPEC میں شامل ہو کر اپنے ملک کی عظیم مفاد کی آبیاری کر چکا ہے۔ جبکہ ایران، اس دور میں خود عراق کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا تھا تو پاکستان میں مہم جوئی کی حیثیت میں نہیں تھا۔
اکتوبر 1999ءمیں جنرل پرویز مشرف کے حواری ٹولے نے پہلے سے تیار منصوبہ کے تحت فوجی بغاوت کر کے جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کی اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا۔ امریکہ کی افغانستان میں جنگ کیلئے جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکی تصرف میں دے دیا اور انڈیا نے فوراً امریکی افغان جنگ کی تائید کی پھر امریکی ایماءپر دسمبر 2001ءمیں پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر فوجیں اور میزائل بردار یونٹیں جمع کر دیں۔ انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے مقبوضہ کشمیر میں فوجوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔ پاکستان میں مستقبل کے عدم استحکام اور اس کے بعد کی صورتحال کا ذکر ذوالفقار علی بھٹو شہید نے کیا تھا، وہ جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی کے ساتھ وقوع پذیر ہو چکا تھا۔ پاکستان کے حصے بخرے کرنے کیلئے تین پڑوسی ممالک، انڈیا، ایران اور مغرب کی قوت کے بل بوتے پر افغانستان نے منصوبہ بندی کر لی۔ 2003ءمیں انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں انڈیا نے ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ سے متعلق معاہدہ میں پیش رفت کی اور چابہار میں ”را“ کا بیس ہیڈ کوارٹر بنایا۔ بعد میں وہاں پر باقاعدہ طور پر ”را“ کا ہیڈ کوارٹر منظم کیا اور بیوپاریوں کے بھیس میں حاضر سروس عسکری و سول جاسوس متعین کر کے، پاکستان میں بلوچستان ، کراچی میں خلفشار دہشت گردی اور افراتفری پھیلاتے رہے۔ افغانستان میں انڈیا نے پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ ملحقہ ہر قابل ذکر شہر میں کونسل خانہ جات منظم کئے اور ان کی تعداد تاحال 15 کے قریب ہے۔ ہر کونسل خانہ میں ”را“ کے اہلکاروں کے ساتھ تقریباً ایک ہزار انڈین مسلح فوج تعینات کی ہوئی ہے۔ ”را“ کے جاسوس تحریک طالبان کے دہشت گرد اور انڈین فوج کے افسر اور جوان پاکستان کی سرحدی پوسٹوں اور پاک سرزمین کے اندر حملے اور تخریب کاری کی وارداتیں کرتے رہتے ہیں۔ اسکے علاوہ انڈین براہ راست لائن آف کنٹرول پر معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فائرنگ اور گولہ باری کر کے سول آبادی کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ 15 برسوں سے پاکستان کے اندر قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے اور کئی ادوار میں ویت نام سے زیادہ خطرناک جنگ ہوتی رہی ہے۔ انڈیا کے جاسوس ادارہ ”را“ افغانستان کے ”NDS“ نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے اشتراک سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات جاری رکھے ہوئے ہے۔ گویا‘ انڈیا، ایران اور افغانستان نے پاکستان کے اندر خلفشار، دہشت گردی اور افراتفری جاری رکھنے کیلئے آپس میں قریبی ہم آہنگی منظم کر لی ہے۔
پاکستان کے اندر دہشت گردی عروج پر تھی کہ 2005ءمیں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں اور چند مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھٹو شہید کے مشورہ کہ ضروری ہے کہ مارشل لاءکی لعنت اور کالک کا ٹیکہ کسی تاخیر کے بغیر ختم کیا جائے پر عمل کرتے ہوئے، چارٹر آف ڈیمو کریسی ”کا منصوبہ تیار کیا اور اس پر من و عن عمل کرتے ہوئے 2008ءمیں مارشل کی باقیات کو اکھاڑ پھینکا۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی کے اغراض، مقاصد اور محاصل سے متعلق کالم ”پاکستان میں مستقبل کا سیاسی منظر“ کے عنوان سے نوائے وقت 30 اپریل 2017ءمیں تحریر کر چکا ہوں۔ انڈیا کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر گولہ باری، افغانستان کی طرف سے پوسٹوں اور سول آبادی پر فائرنگ اور گولہ باری اور ایران کی طرف سے پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں محض اس لئے ہیں کہ داخلی طور پر پاکستان میں عدم استحکام کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ڈان لیکس کا معاملہ رفع ہونے کی بدولت ملک کے اندر اور باہر دشمنوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ہے۔ پانامہ پیپرز کا معاملہ رفع ہونے کے بعد پاکستان کی اندرونی و بیرونی دشمن قوتوں کے مزید سازشوں کا سلسلہ بھی ٹوٹ جائے گا۔ ملک میں انتشار اور تباہی کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ ”زبان درازی، گالیاں دینا اور طاقت کے مظاہرہ“ سے گریز کیا جائے۔ موجودہ حالات اور وقت، سیاسی استحکام کا تقاضہ کرتا ہے۔ فوری تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر پاکستان میں استحکام لانے کیلئے ایک جامعہ سیاسی افہام و تفہیم کی ایسی فضاءقائم کریں جو حسداور عناد کو دور رکھے اور بصیرت اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کیا جا سکے۔ وطن عزیز کے بیس کروڑ عوام انہی سیاسی جماعتوں سے توقع کرتے ہیں کہ ملک کے مفاد کو عزیز تر، ارفع و اعلیٰ رکھ کر دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ٹکراﺅ، غیر شائستہ انداز بیان و رویہ کو ترک کر کے ملک کو استحکام کی بقاءترقی و خوشحالی کیلئے بھرپور کردار ادا کریں۔