30 جولائی 1948ءکو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے خطاب میں قائداعظم نے فرمایا
”میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالیٰ نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا“
پاکستان کی بنیاد لا الہ الا للہ ہے۔ بنیاد مضبوط تھی اسی لئے تو قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ”دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی۔ پاکستان کی بنیاد کوئی سیاسی و مذہبی جماعت نہیں۔ جب بنیاد اتنی مضبوط ہے تو پاکستان کا قائم رہنا تعجب کی بات نہیں۔ نقل ہمیشہ اصل کی ہوتی ہے۔ پاکستان بنانے والے مسلم لیگی کارکن تھے۔ اصل مسلم لیگ اور کارکن تو وقت کے ساتھ رخصت ہوگئے اور نقل مسلم لیگوں نے جنم لے لیا۔ اصل مسلم لیگیوں کا رومانس ان کا آزاد پاکستان تھا اور ہے۔ اصل مسلم لیگیوں کا رومانس ان کی جماعت تھی اور ہے۔ گو کہ اس وقت پاکستان نظریاتی مسلم لیگ سے محروم ہے لیکن رومانس نقل میں اصل کی مشاہبت تلاش کرتا ہے۔ بھٹو کے عاشق زرداری کے ساتھ بھی لگ گئے کہ رومانس بھٹو تھا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے عاشق مسلم لیگ سے منسلک ہو گئے۔ بابائے قوم تو نہ رہے لیکن ان سے والہانہ عقیدت نے مسلم لیگ کو دلوں میں زندہ رکھا۔ یہ وہی رومانس ہے جو نقل پر بنائی گئی مسلم لیگوں کے ساتھ بھی جاری رہا۔ مسلم لیگی نظریاتی گھرانوں میں پرورش پانے والی نسلوں میں دو قومی نظریہ کا شعور موجود ہے۔ جو مودی کا یار ہے غدار ہے۔ اس نعرے کو جنم لینے کی ضرورت کیوں کر پیش آئی؟ لبرل ازم کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ پاکستان کے حکمران بھارت سے ذاتی تعلقات سے لبرل ازم کا کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ جنرل پرویز مشرف کی بھارت سے دوستی کا نتیجہ بھی دیکھا۔ وردی اتری تو بھارت نے منہ نہیں لگایا بلکہ اپنے ملک کا ویزہ دینے سے بھی انکار کر دیا۔ اور موجودہ حکمران جو خیر سے کشمیری بھی کہلاتے ہیں بھارت سے ذاتی و کاروباری تعلق میں اتنے جذباتی ہیں کہ جندل نامی بھارتی کو مدعو کرتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت سی پیک منصوبے اور افغانستان کے معاملہ میں انتہائی سازشی اور دشمن ملک ثابت ہوا ہے۔ اگر کوئی پارٹی یا قائد سے رومانس ملک کی محبت پر غالب آنے لگے تو سمجھو معاملہ
ذاتی پسند و نا پسند کا ہو گیا ہے۔ پاکستان سے محبت کا حقیقی تقاضا یہی ہے کہ ملک پہلے ذاتی تعلقات و پسند و نا پسند بعد میں۔ پاکستان بنانے والے مسلم لیگی چند ایک ورکرز ابھی حیات ہیں اور موجودہ مسلم لیگوں سے بے حد مایوس اور افسردہ ہیں۔ بزرگوں نے آزادی کے لئیے قربانی اس لئے نہیں دی تھی کہ ان کی نسلیں غلام ابن غلام ابن غلام بنا دی جائیں۔ میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کے نام پر جماعت بنائی، بہت مقبولیت پائی مسلم لیگیوں کو رومانس کا کھل کر موقع دیا۔ نواز شریف سے پیار مسلم لیگ سے رومانس کے سبب سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ کا رومانس ہی ہے جس نے نواز شریف کو تین بار وزیراعظم بنایا۔ مریم نواز اور بلاول کے ووٹر بھی قائدین سے رومانس کی صورت ہیں۔ لیکن مسلم لیگیوں میں ایک طبقہ موروثیت اور غلام ابن غلام کے فارمولے کا قائل نہیں۔ نواز شریف کی بیٹی کو مسلم لیگ نواز کی جانشین تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اور نہ ہی مسلم لیگ سے رومانس کا گلہ گھونٹ سکتے ہیں۔ ضمیر و شعور کی آواز پر لبیک کہنے والا یہ مسلم لیگی طبقہ موروثیت کو ووٹ دینے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دے گا۔ مسلم لیگ پاکستان کی بنیاد ہے اور بنیاد پرستوں کا رومانس حالت کرب میں مبتلا ہے۔ ہے کوئی مسلم لیگ یا اس کا قائد جس میں بابائے مسلم لیگ کی صفات میں سے کوئی ایک صفت کی جھلک نظر آئے؟ قائداعظم سے کسی نے پوچھاکہ آپ نے اپنی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو حکومتی عہدہ نہیں دیا حالانکہ تحریک پاکستان میں وہ آپ کے شانہ بشانہ رہیں۔ قائداعظم نے فرمایا یہ پاکستان میں نے اپنی بہن کے لئے نہیں پوری قوم کے لئے بنایا ہے۔ بنیاد پرست مسلم لیگی اپنے لیڈر محمد علی جناح کی سوچ نظریہ اور سیاست کو مرنے نہیں دے سکتے۔