تہران (اے این این+اے ایف پی) ایران میں(کل) جمعہ کو ہونے والے صدارتی انتخابات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ تہران کے سابق میئر باقر قالیباف کی شدت پسند صدارتی امیدوار ابراہیم رئیسی کے حق میں دست برداری اور اسحاق جہانگیری کی صدر حسن روحانی کی حمایت کے اعلان کے بعد اب مقابلہ صرف دو شخصیات کے درمیان رہ گیا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے کیونکہ بنیاد پرست حلقے ابراہیم رئیسی کی طرف داری جب کہ اصلاح پسند اور اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ابراہیم رئیسی کو شدت پسند سرکاری اشرافیہ کے ساتھ ساتھ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔تاہم دو دیگر امیدوار مصطفی میر سلیم اور مصطفی ھاشمی طبا ابھی میدان میں موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ آخری اوقات میں بھی وہ بھی کسی ایک امیدوار کے حق میں دستبردار ہوجائیں گے۔صدارتی انتخابی دنگل کے موجودہ منظر نامے سے لگتا ہے کہ خامنہ ای ابراہیم رئیسی اور صدر حسین روحانی کی کراس فائرنگ کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔رئیسی 1988 میں سیاسی قیدیوں کے بے رحمانہ قتل عام کے لیے قائم کردہ ڈیتھ سکواڈ کے رکن رہ چکے ہیں اور انہیں سیاسی قیدیوں کے جلادوں کا نام دیا جاتا ہے۔ وہ شدت پسندانہ نعروں کے ساتھ میدان عمل میں ہیں۔ابراہیم رئیسی نے اپنے انتخابی نعروں میں عزت اور روزگار کو عام کرنے کی کوشش کی۔ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرنے اور معیشت کی بہتری کے لیے بدعنوانی کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہو کرایران پرعائد تمام عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کرائیں گے۔ ایران میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے دروازے کھولیں گے تاکہ ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ابراہیم رئیسی نے روحانی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ حسن روحانی ملک کے بحرانوں کو ملکی سرحدوں سے باہر حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ تمام مسائل کا حل ایرانی قوم کے ہاتھ میں ہے۔