پانی کی فراہمی میں مسلسل کمی آئندہ دنوں میں ملک کو شدید بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں تقریباً 9.4 ملین ایکڑ فیٹ کا اضافہ ہوگا۔ اگر کوئی شخص کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتا ہے تو وہ پاکستان کا دوست نہیں۔ حکومت لازمی طور پر اس سیاست زدہ مسئلہ کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے کر جائے اور اس پر اتفاق رائے پیدا کرے۔ ایسے تمام ترقیاتی منصوبے جو کہ مخالفت کرنے والے صوبوں کے خدشات کو ختم کر سکتے ہیں کالا باغ ڈیم پراجیکٹ کا حصہ بنا دئیے جائیں اور ان منصوبوں پر بیک وقت کام کا آغاز کیا جائے۔ 20 ویں صدی میں دنیا میں 46000 ڈیمز تعمیر کیے گئے۔ چین نے 22000 اور انڈیا نے 429 جبکہ پاکستان نے صرف 70 ڈیمز بنائے۔ 1990ءسے 2015ءتک پانی کی فی کس فراہمی 2127 سے کم ہو کر 1306 کیوبک میٹر ہو گئی ہے اور مستقبل میں یہ مزید کم ہو جائے گی۔ ورلڈ بینک کے مطابق کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم بالترتیب 1995ءاور 2010ءمیں تعمیر ہو جانے چاہئیں تھے لیکن ہم بد قسمتی سے نہ بنا سکے اور کالا باغ ڈیم کو متنازعہ بنا دیا۔
تربیلا ڈیم کے بعد کوئی بڑا پانی ذخیرہ کرنے کو منصوبہ مکمل نہیں کیا گیا اس وجہ سے ہماری ملکی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 30 دن کی ضرورت سے بھی کم ہو گئی ہے جو عالمی معیارات کے مطابق کم از کم 120 دن کی ہونی چاہیے تھی۔ کالا باغ ڈیم کو 1980ءمیں مارشل لاءکے دور میں متنازعہ بنا دیا گیا جبکہ اس کی فزیبلٹی رپورٹ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1975ءمیں تیار کی گئی تھی۔ اگر یہ سندھ کے لئے اتنا نقصان دہ ہوتا جتنا کہ آج کل سندھی رہنما سمجھتے ہیں تو مرحوم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کبھی اس فزیبلٹی کی منظوری نہ دیتے۔ انہوں نے ان خدشات کو مسترد کر دیا کہ اس ڈیم کی تعمیر سے پشاور ویلی اور نوشہرہ میں سیلاب آ جائے گا۔
شمس الملک واپڈا کے چیئرمین رہے‘ ان کا اپنا گھر نوشہرہ میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم نوشہرہ اور اردگرد کے دیگر اضلاع سے اوسطً سطح سمندر سے کم بلندی پر ہے اور اس کا مجوزہ ڈیزائن 10 لاکھ کیوسک پانی کے بہاو¿ کو آسانی سے گزار سکتا ہے اس لئے یہ کہنا کہ اس ڈیم سے نوشہرہ اور خیبر پختونخواہ کے دیگر اضلاع کو سیلاب کا خدشہ ہے اور اس کے کچھ اضلاع میں سیم اور تھور کا مسئلہ ہو سکتا ہے حقائق کے منافی بات ہے۔
نوشہرہ اور پشاور ویلی کو سیلابی پانی سے بچاو¿ کیلئے دریائے سندھ کے معاون دریاو¿ں پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم بنانے ہوں گے اور دریاو¿ں کے پشتے مضبوط کرنے ہونگے جو کہ اس مسئلے کا حل ہے نہ کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت سے یہ مسئلہ ہوگا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے ڈیرہ اسماعیل خان کو رائٹ بنک کینال سے تقریباً 2.95 ملین ایکڑ فیٹ سالانہ پانی دستیاب ہوگا جس سے تقریباً 3 ملین ایکڑ بنجر اراضی سیراب ہوگی۔ اس کی تعمیر سے صوبوں میں پانی کی فراہمی کے معاہدے کے مطابق سندھ کو زیادہ پانی ملے گا اور صوبہ سندھ کا یہ اعتراض کہ دریائے سندھ میں پانی کا بہاو¿ بہت کم ہو جائے گا اور دریائی پانی سمندر میں نہ جانے سے سمندری پانی ٹھٹھہ، بدین اور دیگر ساحلی اضلاع میں زرخیز زمین کو بھی بنجر کر دے گا۔ قطعاً غلط فہمی پر مبنی ہے۔ کالا باغ ڈیم سے صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کو کوٹری سے نیچے سارا سال پانی ملے گا اور مناسب مقدار میں سمندر میں شامل ہونے سے دستیاب زرخیز زمین میں اضافہ ہوگا۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق چشمہ اور تربیلا ڈیمز بننے کے بعد سندھ کو پانی کی فراہمی میں اضافہ ہوا تھا لہٰذا وفاقی حکومت ہنگامی بنیادوں پر کالا باغ ڈیم کے مسئلہ کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے جا کر اس پر اتفاق رائے پیدا کرلے۔ جتنا جلد یہ مسئلہ ہوگا اتنا ہی ہمارے اور اگلی نسلوں کیلئے بہتر ہوگا۔ اب اس مسئلہ پر مزید سیاست چمکانے کیلئے وقت نہیں ہے۔
”کالا باغ ڈیم بہت سے مسائل کا حل“
May 18, 2018