نواز شریف اجمل قصاب اور جنرل شانتی

ممبئی حملوں میں کئی امریکی شہری بھی مارے گئے تھے اس لئے امریکی تفتیش کار بھی تحقیقات کیلئے وہاں پہنچ گئے تھے جو تین ہفتے انیتا سے تفتیش کرتے رہے جو ملزموں کی شناخت کے حوالے سے انیتا کی صلاحیت سے بہت متاثر ہوئے تھے انہوں نے انیتا کو تفتیش میں تعاون کرنے پر 10 ہزار امریکی ڈالر دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
11 جنوری 2008ءکو حملہ آوروں کی آمد کی واحد چشم دید گواہ انیتا غائب ہو گئی اور تقریباً ایک ہفتہ غائب رہی۔ 16 جنوری 2008ءکو دوبارہ منظر عام پرنمودار ہونے کے بعد انیتا نے دعویٰ کیا کہ امریکی خفیہ اداروں کے ارکان اسے عدالت میں بیانات دلوانے اور تحقیق و تفتیش کے لئے امریکہ لے گئے تھے جہاں اسے عدالت میں پیش کر کے بیان بھی لیا گیا جسے ممبئی پولیس نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ ایس ایم مشرف نے اجمل قصاب کی شائع ہونے والی تصاویر کا تکنیکی تجزیہ کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ تصاویر اصلی نہیں ہیں بلکہ وقوعہ سے پہلے یا بعد ہی لی گئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چھتر پتی شیوا ٹرمینل پر لی جانے والی اجمل قصاب کی تصویر ممبئی مرر میں شائع ہوئی تھی جو فوٹوگرافر سبطین ڈی سوزا نے لی تھی۔ یہی تصویر مراٹھی اخبار روزنامہ پودھاری میں کسی اور فوٹوگرافر کے نام سے شائع ہوئی جبکہ اس پلیٹ فارم پر کھانے کے سٹال کے مالک ششی کار سنگھ نے واضح بتایا تھا کہ تمام حملہ آور نقاب پوش تھے اسی طرح ٹائمز آف انڈیا نے بھی بغیر وضاحت کہ یہ تصویر کس فوٹوگرافر نے بنائی تھی گولیاں برساتے ہوئے حملہ آور کی سامنے سے ایسی تصویر بنانا ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسے فوٹوگرافر کا خود کار رائفل کی گولیوں سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہے۔
اسی طرح اجمل قصاب کی ایک واضح تصویر مراٹھی زبان کے اخبار مہاراشٹر ٹائمز میں شائع ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایک تصویر دو مختلف حریف اخبارات میں کیسے بیک وقت ایک ہی دن شائع ہو سکتی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ خفیہ ادارے منظم منصوبہ بندی کے تحت اپنی تخلیق کردہ تصاویر چھپوا رہے ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسی طرح سی سی ٹی وی کیمرے بھی صرف اجمل قصاب ہی کی تصاویر بنا پائے جبکہ دیگر حملہ آوروں کی ان ایکشن وڈیو دستیاب نہ ہو سکیں۔برادرم محسن شاہین نے اسی حوالے سے درج ذیل بڑا متوازن خط لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں۔ آپ سے محبت کے باوجود اور نواز شریف سے بیشمار اختلاف کے باوج±ود1984ءسے اختلاف کرنے والے رہنماﺅں کو باری باری غدار،وطن فروش اور شیطان قرار دینے کی م±ستقل روش تکلیف دہ اور سیاسی عمل کو ناقابلِ تلافی ن±قصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
م±خالفین کے لئے جس جس شخص نے بھی بازاری ز±بان کے استعمال کا رواج ڈالا اس نے عوام کے ذوق اور مزاج میں جذباتیت اور عامیانہ پن کو فروغ دیا۔ اس سے دینداروں کے ہاتھ ک±چھ آنے والا نہیں ہے۔م±لک پر جو قیامت گزر رہی ہے،جس قماش کی قیادت ہم پر مسلط ہے اور من حیث القوم جن عذابوں سے سب دوچار ہیں اس کا محرک اور منبع صرف ایک ہی جگہ سے پھ±وٹ رہا ہے،ایک ہی سر چشمہ ہے جو بزعمِ خ±ود ہر چیز کا امرت دھارا اور درماں بنا ہوا ہے۔حالانکہ جو اس کا اپنا کام اور ب±نیادی کام ہے جب بھی آزمائش ہوئی وہ اس میں ناکام ثابت ہوئے،ہم پھر بھی ان سے محبت کرتے ہیں کہ کوشش اور ق±ربانیوں پہ شک نہیں ہے۔
علاج ایک ہی ہے خواہ قیامت گزر جائے سیاسی عمل اورآزادانہ انتخاب کے عمل کو جاری رہنے دیا جائے۔سول ح±کومت اور اس کے تمام فیصلے صرف اس کا اختیار ہو اس میں کسی قیمت پر اور طاقت کی ب±نیاد پر دخل اندازی کی کوشش نہ ہو۔میرا م±شاہدہ، م±طالعہ کہتا ہے کہ اس کے علاوہ ہر راستہ یا تدبیر پستی اور قوم کی مزید تذلیل کا باعث بنے گی۔بندوق اور دھونس سارے جہان میں جہاں بھی م±لکی اور سیاسی ا±مور میں دخل دیتی ہے وہاں شع±ور اور مثبت سوچ بے دخل کرتی ہے۔جب جب جو جو ا±ن کی چاپلوسی اور خدمتگاری کے ہنر سے آراستہ،آلہ کارمحض بن کے اپنی مطلب براری کی کوشش کرتا ہے،ہر آنے والے دن میں مزید بے توقیر اور بے وقعت ہوتا جاتا ہے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن