ملکی سیاسی منظر نامہ

جوں جوں ملک انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے سیاسی درجہ حرارت میں نمایاں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے سیاسی عمل میں حصہ لینا ہر سیاسی جماعت کا بنیاد ی حق ہے اپنے منشور اور آئندہ کی منصوبہ بندی عوام کو پیش کر کے عوام سے ووٹ مانگے جا سکتے ہیں، نئے وعدے اور عوامی مسائل کا حل سیاسی جماعتوں کا منشور ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں صورتحال مختلف دکھائی دے رہی ہے حکومت میں موجود حکمران خود کو اپوزیشن میں تصور کر رہے ہیں اور اپنی ہی حکومت کے مسائل کا ملبہ ایسے لوگوں پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے جنہیں آخر کار"خلائی مخلوق"کا نام دےا گیا ہے۔ میاں نواز شریف ایک نئے بیانیے کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں ملک کے مقتدر اداروں سے اُن کی محاذ آرائی شروع ہے احتساب عدالت میں روزانہ کی پیشیوں کے بعد ہونے والی میڈیا گفتگو اس سلگتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا ہونے نہیں دے رہی تھی کہ ممبئی دھماکوں کے بارے میں انگریزی اخبار میں اسی مخصوص رپورٹر کے ذریعے نواز شریف کی گفتگو نے بلا شبہ جلتی پر تیل کا کام کیا اور بھارتی میڈیا میں بالخصوص اور پاکستان میں بالعموم وہ ہاہا کار مچی کہ رہے نام اللہ کا۔۔۔ اور پھر جس انداز میں اس انٹرویو کو ملتان ائیرپورٹ پر مینج کیا گیا وہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اس پر مزید اچنبے کی بات یہ ہے کہ جب تک آئی ایس پی آر کے ترجمان کا یہ بیان نہیں آیا کہ وزیراعظم کو نوازشریف کے اس عمل کی نشاندہی کر دی گئی ہے نواز لیگ کے ترجمان کو بھی اس بیان کی وضاحت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اور48گھنٹے گزر جانے کے بعد جب پانی سر سے گزرتا ہوا محسوس ہوا تب لکیر پیٹنے کا خیال آ ہی گیا ۔اس تناظر میں ملک کی سیاسی صورتحال دھندلی اور غیر واضح دکھائی دیتی ہے مستقبل قریب میں آنے والے عام انتخابات نواز لیگ کےلئے اپنی سیاسی بقاءکی جنگ ہےں تو تحریک انصاف کےلئے بھی ابھی نہیں تو کبھی نہیں والا معاملہ دکھائی دیتا ہے عمران خان کے 11نکات زبان زد عام ہیں انہوں نے جنوبی پنجاب کے صوبے کے متعلق 100دن میں عملی اقدام اٹھانے کا اعلان کر کے اہم پیش رفت کی ہے جس سے ان انتخابات کو ایک نیا نعرہ مل گیا ہے اس میں مزید اہم اقدام یہ ہوا ہے 2 درجن کے لگ بھگ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے جس سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب جو مرکز میں اقتدار قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے میں نئی سیاسی صف بندی کر دی ہے جس سے نواز لیگ کو سخت تشویش کا سامنا ہے، اسی طرح تحریک انصاف میں ملک بھر سے خاص طور پر پنجاب کے وسطی اضلاع سے منتخب ہونے کی صلاحیت رکھنے والی شخصیات کی بڑی تعداد میں شمولیت بڑا بریک تھرو ہے جس کا کریڈٹ عمران خان کے بعد پی ٹی آئی وسطی پنجاب کے صدر عبدالعلیم خان او ر ان کے دست راست محمد شعیب صدیقی کو جاتا ہے جنہوں نے منڈی بہاو¿ الدین ، گجرانوالہ، قصور ، سیالکوٹ ،شیخوپورہ ، ننکانہ اور دیگر اضلاع سے ایسی شخصیات کو پی ٹی آئی میں شامل کروا لیا ہے جن کی کامیابی تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد یقینی دکھائی دیتی ہے ۔اس سب صورتحال میں اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی امریکہ کے ساتھ شروع ہونے والی ٹک ٹک اب کھلم کھلا توتکار تک پہنچ چکی ہے پاکستان نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے امریکہ کے سفارتی عملے پر بھی ویسی ہی پابندیوں کے اطلاق کا اعلان کر دیا ہے جو اس نے پاکستان کےلئے منتخب کی تھیں اسی طرح پاکستان پر دیگر پابندیوں میں بھی امریکہ نے کسی نرمی کا مظاہرہ کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کیا ،ٹرمپ بہادر اپنی ہی مستی میں چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اس عمل کا یقینی طور پر کچھ نہ کچھ نتیجہ پاکستان کی سیاست پر بھی دیکھنے میں ملے گا ،پاکستان کی چین کے ساتھ قربت امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی وہ اس نئے بلاک سے نا خوش دکھائی دیتا ہے اور ہر قیمت پر پاکستان کو سبق سکھانے کے درپے ہیں خواہ اس کےلئے پاکستان میں اتنا ہی سیاسی عدم استحکام کیوں نہ لانا پڑے اور خود پاکستان کےلئے بھی کوئی اور آپشن نہیں بچا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدان کس قدر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں بالخصوص وہ قیادت جو1985کی دہائی سے کسی نہ کسی طور پر حکومت اور سیاست میں کارگر رہی ہے اب 3 دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اس سے دستبردار ہونے کےلئے تیار ہیں یا نہیں، صورتحال بڑی عجیب دکھائی دیتی ہے جب جاوید ہاشمی جیسا شخص جسمانی معذوری کے باوجود کئی مرتبہ ممبر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر رہنے کے باوجود قومی اسمبلی کی نشست کےلئے باقاعدہ میدان میں ہو اور چوہدری نثار جیسی شخصیت ایک کی بجائے2 یا 3 نہیں 4 حلقوں سے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرے تو نوجوان نسل یہ سوچنے میں حق بجانب ہو گی کہ ان کی باری کب آئے گی یوتھ کو آگے لانے کے زبانی نعرے تو سب ہی کرتے ہیں عملی طور پر اس کا وقت کب آئے گا؟آنے والے عام انتخابات ٹیسٹ کیس ثابت ہوں گے کہ کونسی جماعت نوجوانوں کو آگے لاتی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حالیہ نوٹس کے مطابق 5 فیصد خواتین کے کوٹے پر بھی کس قدر عملدرآمد ہوتا ہے ۔یہ ملک میں چوتھے مسلسل عام انتخابات ہیں2002 سے سیاسی عمل جاری ہے جس کو ا ب ایک نئی جہد حاصل ہونے جا رہی ہے یقینا دنیا میں سب سے زیادہ مستقل چیز تبدیلی ہے اس وقت پاکستان میں بھی سسٹم کی تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں حکمران جماعت سمیت نظام کو بدلنے ،نئے چہرے آگے لانے اور حالات تبدیل کرنے کی باتیں کر رہی ہے ہمارے ہاں کرنے کو بہت کچھ ہے لیکن نیک نیتی شرط ہے اور یہ کہنے میں کوئی ہر ج نہیں کہ میدان میں اترنے والی تمام جماعتوں میں عمران خان ہی وہ چہرہ ہے جس کو عوام نے ابھی تک آزمایا ہی نہیں اسے اقتدار میں آنے کا کبھی موقع ہی نہیں ملا تو کرپشن یا دیگر الزامات کیسے لگ سکتے ہیں دعا یہ ہے کہ عام انتخابات بر وقت ،صاف اور شفاف ہوں اور تمام سیاسی جماعتیں اس کے نتائج تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھیں تا کہ ملک مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھ سکے اور درپیش چینلجوں کا ہم سب مل کر اس انداز میں مقابلہ کریں حالات جس کے متقاضی ہیں وگرنہ اگر پھر ملک ڈی ٹریک ہو گیا تو جمہوریت کی گاڑی کہیں کی کہیں جا سکتی ہے اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری اس شخص پر عائد ہوتی ہے جو سب سے زیادہ اقتدار پر براجمان رہا ہے نواز شریف بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے آئیں ، کھلے دل سے قوم سے معافی مانگیں اور اقتدار اگلی نسل کو منتقل کریں عوام جسے ووٹ دیں اسے تسلیم کریں اور الیکشن سے پہلے ہی دھاندلی کا نعرہ لگانا نہ شروع کر دیں بصورت دیگر نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے کی گردان جاری رہی تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...