ابتلا وآزمائش کا کیسا پ±رفتن دور ہم پرسایہ فگن ہو گیا۔ ہمارے کان جو سن رہے ہیں ہماری آنکھیں جو دیکھ رہی ہیں کیا یہ سب واقعی ایسا ہی ہے؟ یا کسی نے کوئی خطرناک شرارت کی ہے۔ آج سے 10 برس پیشتر پڑوسی ملک بھارت کے شہر ممبئی میں ہوئے 'مشکوک دھماکوں' نے قوم کو اتنا گنگ و چوکنا نہیں کیا تھا جتنا آج کل میاں نواز شریف نے ایک ’ متنازعہ بیان‘ دے کر ملک کے سیاسی سسٹم کو غیر یقینی حالت کی نہج پر پہنچا دیا ہے 'ممبئی دھماکوں' میں ملوث ہاتھوں کو ملکی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل تھی؟‘ اب ا±ن کے کہے گئے متنازعہ بیان کی کتنی ہی توضیحات وتشریحات کی جاتی رہیں بات توا±ن کے منہ سے نکل ہی گئی ہے' لاکھ لکیریں پٹتے رہیں جوداغ لگنا تھا سو لگ گیا ہے 'بھارت اورامریکا جیسے ملک دشمنوں نے یہ متنازعہ بات تواچک لی'عالمی میڈیا پرڈگڈگیاں بج رہی ہیں صفائیاں اورتردیدیں ا±ن کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتیں عالمی سطح پرپاکستان کے خلاف پاکستانی سیکورٹی اداروں کے خلاف جوطوفان ِبدتمیزی ا±ٹھنا تھا وہ ا±ٹھ چکا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف سے اِیسے’ متنازعہ بیان‘ کی توقع کسی کو نہیں تھی'آج نوازشریف وہ ہی کچھ کہہ رہے ہیں جو اچکزئی کا نکتہ ِنظر ہمیشہ رہا'اچکزئی کا مطمع ِنظر مولانا فضل الرحمان کا بھی ہے وہ دل سے فاٹا کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے‘ فاٹا صدیوں کی تاریخ سے خیبر پختونخواہ کا حصہ کہلایا جاتا رہا اِسے علیحدہ صوبہ بنایا گیا تو یہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گونپنے جیسا ناقابل ِ تلافی نقصان ہوگا مسٹرشریف' اچکزئی اورمولانا ایف رحمان اور مسٹر زرداری ایک ہی پچ پرہیں جبکہ فاٹا کے علاقوں میں راتوں رات مشروم کی مانند ابھرنے والی نئی لسانی تنظیم'پشتون تحفظ تحریک' کے جنونی مقررین قبائلی پختونوں کا لہوگرمانے کے لئے اپنے جس نئے 'بیانیہ' میں پاکستانی فوج پر بلاوجہ لعن وطعن اور تیزوتند تنقید وتنقیض کا ملک دشمن رویہ اپنایا ہوا ہے۔ نواز شریف کا تند وتیز جنونی لب ولہجہ بھی ا±ن سے ملتا جلتا ہے'فوج سدھر جائے؟'بھئی کیا مطلب؟ یہ راتوں رات یکایک کیسے اور کیوں کرممکن ہوگیا کل تک جن قبائلی علاقوں میں دنیا کی بدترین دہشت گردی کا بازار گرم تھاپاکستانی فوج جن سفاک دہشت گردوں کے مختلف اقسام کے مسلح گروہوں سے نبردآزما تھی'جہاں آئے دن معصوم اور بے گناہ پختونوں کے خون کی ہولیاں کھیلی جاتی تھیں جہاں امن وامان کا دور دور تک شائبہ دکھائی نہیں دیتا تھا دن دہاڑے غیرت مند اور باوفا پختونوں کی بہن بیٹیوں کی عزت و ناموس کا کوئی پاسدار نہ تھا پ±رسان ِحال نہ تھا شیطانی صفت ہیبت اِن علاقوں پر منحوس سائے کی طرح چھائی ہوئی تھی وہاں کئی فوجی آپریشنز ہوئے یہی علاقے تھے ،جنہیں ناقابل ِتسخیر علاقوں سے تشبیہہ دی جاتی تھی ،جب ملکی فوج نے اندرونی امن وامان قائم کرنے کا اپنا آئینی حق استعمال کیا، تو دنیا دم بخود ہوگئی' دہشت گردی کے آکٹوپس کے پنجے ملک کے 'سیٹلڈ' علاقوں تک پھیل گئے، لگاتار کہیں رکے بغیر پاکستانی فوج اور دیگر سویلین سیکورٹی اداروں نے بیش بہا قیمتی جانوں کی قربانیاں دینے کے بعد دہشت گردی کے عفریت کو جب آئین کی مضبوط گرفت میں کسا‘ اُنہیں نشان ِعبرت بنایا تو وہ سرحد پارافغانی علاقوں میں قائم بھارتی قونصل خانوں میں جاکر پناہ گزیں ہو گئے۔ یہ دہشت گرد کیسے حیلہ سازاورکس درجہ کے دھوکہ بازنکلے' ا±نہوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ اپنی وحشیانہ دہشت گردی کی انسانیت کش کارروائیوں کی بدولت اپنے مذموم اور ناپاک ارادوں اورمقاصد میں اب کامیاب نہیں ہوسکتے تو ا±نہوں نے اپنی ثقافتی وضع قطع تبدیل کرلی'لباس بدل گئے'چہروں کے حلیے بدل گئے'مکالمے بدل گئے'مطالبات میں اب سیاسی محرومیوں کا رونا پیٹنا شروع کردیا گیا اُن کے نعرے تبدیل ہوگئے اور اس لسانی تنظیم کی ریلیوں میں جب یہ نعرہ زیادہ لگایا جانے لگا کہ 'دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے' تو سمجھنے والوں کی آنکھیں کھل گئیں ’یہ محروم طبقات نہیں بلکہ آئین شکن وہ ہی دہشت گرد اور اُن کے سہولت کار ہیں جنہوں نے اپنی توپوں کا رخ ملکی افواج کی جانب اب لفظوں کی زہریلی نفرتوں کی شکل میں موڑدیا ہے قوم کی سمجھ میں آگیا ہے کہ ان کی صورت میں عالمی و علاقائی عناصر جو قبائلی علاقوں کو پاکستان سے جدا کرنے کی جیسی احمقانہ سازشوں کوبروئے ِکارلانے میں اب اپنی حدوں کو پھلانگ چکے ہیں ' افغانستان میں بھارتی سفارتی بیوروکریٹس کی سازشیں کافی زوروں پر ہیں لاہور میں متذکرہ بالا لسانی تنظیم'پشتون تحفظ تحریک' میں ایک مقرر'لالہ فضل ایڈووکیٹ' نے 'دہشت گردی کے پیچھے وردی' کے جنونی احمقانہ نعرے لگواکرتاریخ کا نہایت ہی بھونڈا جھوٹ گھڑا ،پرلے درجے کے بیہودہ جھوٹ اورمن گھڑت کہانیوں کو سن کر ہمیں یقین ہے کہ'حقیقی غیرت مند‘ پختہ ارادوں سے لیس وفادار'اپنی عزت ِنفس اوراپنے دین پرمرمٹنے والے پشتونوں'کا یقینا خون کھول ا±ٹھا ہوگا، اصل اورحقیقی پشتونوں اور'افغانی پشتونوں' میں تاریخ نے بڑاواضح فرق اور امتیازبتایا ہے، پاکستانی علاقوں میں رہنے والے پشتونوں کی الگ تعریف ہے، سوات کے علاقوں میں بسنے والوں کی تعریف الگ ہے۔ اصل و اعلیٰ پاکستان سے والہانہ عشق کرنے والے پختونوں کی نسلی کڑیاں پشاور سے ا±وپر کے بالائی علاقوں تک پھیلی ہوئی ہیں، پاکستان کی سرزمین ایسے ہی عظیم اورباقار پختونوں کی کل بھی احسان مند تھی آج بھی ہے ہمیشہ احسان مند رہے گی وہ قدم بہ قدم پاکستانی افواج کے پُرخلوص سپاہی ہیں، جنوبی وزیرستان کے پختون ہوں یا شمالی وزیرستان سمیت پختون ایجنسیوں کے باسی‘ دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی سفاکانہ غنڈہ گردی سے سبھی تنگ تھے، ایک سوال‘ اِس نام نہاد پختون لسانی تنظیم کے چلانے والوں سے کوئی ذرایہ تو پوچھے جنہوں نے احمقانہ طرزِعمل اپنایا ہوا ہے کہ’ اے پی ایس پشاور پر دہشت گردی کا حملہ کس نے کرایا تھا؟‘ اگر ملکی افواج پر دشنام طرازی کی جارہی ہے یہ سوچے سمجھے بغیر’ اے پی ایس پشاور میں ڈیڑھ سو سے زائد وحشیانہ دہشت گردی کا شکار بننے والوں میں کیاسبھی بچے پاکستانی فوجیوں کے بچے نہیں تھے؟‘ کیا اے پی ایس کا اسٹاف پاکستانی فوج کا اسٹاف نہیں تھا؟‘وائے تعجب! سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اُس عہد کے تاریخ ساز کردار کو پاکستانی کیسے فراموش کردیں؟ ہاں! پاکستانی فوج دنیا میں کسی کی آنکھ میں کھٹکتی ہے تو وہ آرایس ایس بھارتی ہندوتوا کی تنظیموں کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح سے کل بھی کھٹکتی تھی ،آج بھی کھٹکتی ہے‘ ہمیشہ کھٹکتی رہے گی‘ پاکستان جنوبی ایشیا میں بھوٹان یا نیپال جیسا بھارت کا زیر دست ملک بن کر نہیں ر ہے گا پاکستان خود مختار‘ آزاد اور دنیا کا تسلیم شدہ ایٹمی ڈیٹرنس کا حامل مسلم ملک ہے جو بیس کروڑ پاکستانیوں کی امنگوں کا ترجمان ہے ملک کی آئینی حدود میں عوامی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کا عزم سیاسی وجمہوری حکومتیں ہی پایہ ِتکمیل کو پہنچاتی ہیں جہاں تک پاگل پن کی جنونیت کی حیلہ سازیاں کرنے کی جونئی ریت چل پڑی ہے ٹرمپ اور مودی ٹائپ کے ایسے مزید ’لیڈر اگر یونہی برسراقتدار رہے تو جنوبی ایشیا میں غیر ملکی آلہ کار لسانی تحریکیں مزید ا±ٹھتی رہیں گی۔