’’سری نگر کی جامع مسجد مسلسل کئی ہفتوں ،عشروں سے سجدہ ہائے نیاز مندانِ کشمیر کی عقیدت سے یکسر محروم ہے، در و دیوار غلغلہ ہائے شوق کی نوائے دلنواز سے عاری ہے، لامکاں کا ’’مکانِ جلوہ جاں سوز ‘‘ مختلف زاویے سے لہو لہو ہوچکا ہے۔ صف بہ صف نماز عشق کی ادائیگی کی دلربا تصویر یک قلم مضمحل ہوگئی، جمعیت اور اجتماعیت جو کہ اسلام کی اولین تعلیم ہے اس پر سیاسی جبر نے شب خون مار رکھا ہے، رستخیزِ عشق کی کارفرمائی یوں تو بند کمرے میں بھی ہوسکتی ہے؛ لیکن ہجومِ عاشقاں میں شورشِ دلِ گریہ کی فغانِ عرش رسا تمازتِ عشق کو مزید مہمیز کرتی ہے، وہاں مسلسل لات و منات کے بندے شرارِ نَفسِ اہرمن بن کر اٹھتے ہیں اور ‘‘عالم ہو’’ کو خاکستر بنادیتے ہیں۔ سینے میں روح محمدیؐ جلوہ نما ہوکر طمانیت پیدا کرتی ہے، آنکھوں میں سرور اور دل میں اعتقاد کی پختگی نیز صبر و ضبط کی ترغیب دیتی ہے، ان شورش دل ہائے گریہ مند صبر و ضبط پر کار بند ہوتے ہوئے اپنے اشک و لہو سے اپنا چہرہ بھی دھل لیتے ہیں؛ لیکن پیش آمدہ خونچکانی ضبط کے بندھن کو یک قلم توڑ دیتی ہے، لالہ و صنوبر کی گیتی بے مثال غلمانِ عدن کے لہو سے سرخ ہوتی جارہی ہے۔ معصوم بچوں کی کلکاریاں نوائے بے نوا بن کر عرش تک جاتی ہیں اور اسے متزلزل کردیتی ہیں۔ 69 سال سے لاکھوں معصوم کی شہادت اور گمنام قبروں کے مکیں جنھوں نے امن کی خواہش کی تھی انھیں امن کا درس یوں دیا کہ شہادت کے جام صہبا نوش کرگئے اور جن کی قبروں پر نہ تو آج تک کوئی فاتحہ پڑھ سکا اور نہ ہی کسی نے ان عاشقان پاکباز کی قبروں پر ’’لباس جنوں‘‘ چڑھایا الغرض اتنی قربانیوں کے باوجود امن کیوں قائم نہ ہوسکا اس کی وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
سنو اے جبر و تعلی!
’’لہو ہمارا بھلا نہ دینا ‘‘
ہم ہیں خاک و خوں میں غلطاں
’’لہو ہمارا بھلا نہ دینا‘‘
جامع مسجد ہفتوں عشروں سے سجدہ ہائے نیازمندان کشمیرسے محروم
May 18, 2018