مسئلہ کشمیرحساس محل وقوع کے باوجود عالمی توجہ سے اوجھل کیوں ؟

May 18, 2018

جموں و کشمیر بھارت کے زیر قبضہ شمالی ریاست ہے جس کا بیشتر علاقہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کی سرحدیں جنوب میں ہماچل پردیش، مغرب میں پاکستان اور شمال اور مشرق میں چین سے ملتی ہیں۔ کشمیر تین حصوں جموں، وادی کشمیر اور لداخ میں منقسم ہے۔ سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی دارالحکومت ہے۔ وادی کشمیر اپنے حسن کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے جبکہ مندروں کا شہر جموں ہزاروں ہندو زائرین کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ لداخ جسے "تبت صغیر" بھی کہا جاتا ہے، اپنی خوبصورتی اور بدھ ثقافت کے باعث جانا جاتا ہے۔ ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاہم ہندو، بدھ اور سکھ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔
کشمیر دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام پاکستان کے بعد سے تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ علاقہ عالمی سطح پر متنازعہ قرار دیا گیا ہے۔
بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد، جموں میں 28 فیصد اور لداخ میں 44 فیصد ہیں۔ جموں میں ہندو 66 فیصد اور لداخ میں بدھ 50 فیصد کے ساتھ اکثریت میں ہیں۔
مسئلہ کشمیر کیوں عالمی توجہ نہیں لے سکا،سویڈن میں پاکستان کے سابق سفیر ڈاکٹر عبد الستار بابر اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کشمیر کو بھلا دیا گیا ہے اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پالیسی اب متحرک نہیں رہی۔ ایک سابق سفیر سے بہتر خارجہ پالیسی پر کوئی اور تبصرہ نہیں کرسکتا۔ مسئلہ کشمیر پر حکومت پاکستان کی دلچسپی دیکھنا ہو توپارلیمینٹ کی کشمیر کمیٹی کو دیکھ لیں جس کی سربراہی ہمیشہ سیاسی رشوت کے طور پردے دی جاتی ہے جس کا مسئلہ کشمیر سے واقف ہونا ضروری نہیں۔
موجودہ حکومت نے بھی کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے سلسلہ میں سابق دورحکومت کا تسلسل برقرار رکھا ہے۔ جموں کشمیر پر بہت مضبوط کیس ہونے کے باوجود دنیا سے اس کے لیے حمایت کیوں حاصل نہیں کی جاسکی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی موجودگی، بھارت کے غیر قانونی قبضہ، ہزاروں شہادتوں کے باوجود مسئلہ کشمیر کیوں عالمی توجہ حاصل نہیں کرسکا؟ یہ سب اہم سوال ہیں کہ ہمارے پالیسی سازوں نے اس بارے میں کیا سوچا اور کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے ۔
یوم یکجہتی کشمیر منانے کے ساتھ کشمیر پالیسی کا جائزہ بھی لینا چاہیے اور ہر سال اس دن حکومت کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی کارکردگی بتانی چاہیے کہ عالمی سطح پر اس مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ دنیا کے تقریباََ ایک سو ممالک میں موجود پاکستانی سفارت خانوں نے اس ضمن کیا کرادر ادا کیا ہے۔
کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اچھی بات ہے لیکن یہ اظہارہڑتالوںاور چھٹی کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی غیر ممالک پر انحصار کرنے والی معیشت جس پر66457 ملین ڈالر کے صرف بیرونی قرضے ہیں، اسے ایک دن کی چھٹی کے نتیجے میں 82 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہو سکتی ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوگا کیونکہ معاشی طور پر مستحکم پاکستان ہی دفاعی طور پر مضبوط ہوگا جو آزادی کشمیر کا ضامن ہوسکتا ہے۔
1974 میں اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمین ہونے والے معاہدہ پر اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پورے پاکستان میں ہڑتال کروائی تھی۔ 1990 سے 5 فروری کے دن آج تک ہونے والی ہڑتالوں اور چھٹیوں سے ملک کو تقریباََ 2 لاکھ 13ہزار 2 سو ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ اتنی رقم سے پاکستان کی تقدیر بدلی جاسکتی تھی۔المیہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے آزادکشمیر میں آنے والے مہاجرین بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔یوم یکجہتی کشمیر کے ساتھ یوم یکجہتی پاکستان منانے کے بھی ضرورت ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر منانا محض ایک جذباتی اقدم ہے۔ جنوبی ایشیا میں مستقل امن کے لیے بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادیں تسلیم کرنا ہوں گی۔ اس مسئلہ کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ہوگا جواٹوٹ انگ اور شہ رگ سے ہٹ کر ہی ممکن ہے۔
حق خود ارادیت کشمیری عوام کا پیدائشی حق جس کی ضمانت اقوام متحدہ نے بھی دی ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں نے اقوام عالم کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا۔ کشمیریوں کو پنڈت نہرو کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو اس مسئلہ کو اقوام متحدہ لے گیا اور جس وجہ سے یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن گیا۔ یہ اب بھی اقوام متحدہ کے حل طلب مسائل میں سے ایک ہے اور جموں کشمیر کی خونی لکیر پر اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی موجودگی اس کا مظہر ہے۔ دنیا کے سامنے بھارتی جمہوریت کا اصل چہرہ پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح کشمیری عوام کے آزادانہ رائے شماری کے جمہوری حق سے انکار کررہا ہے۔

مزیدخبریں