جب سے پاکستان بنا ہے کرپشن بھی کسی نہ کسی طرح ساتھ رہی ہے، وجہ یہ کہ احتساب نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی۔ کرپشن دیمک کی طرح معاشی نظام کو چاٹتی اور کھوکھلا کرتی رہی ہے۔ اب کرپٹ مافیا اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ اب وہ حکومت کوایک لات مار کر گرانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ نیب جس نے بھی بنایا۔ اگر ایمانداری سے کام کرتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ مگر نیب بھی کرپٹ مافیا کے سامنے بے بس تھا۔ آج کرپٹ مافیا نے پوری دنیا میں اپنے کاروبار اور محلات بنا لیے ہیں اور 71 سال کے بعد بھی عام آدمی روٹی ، صحت ، تعلیم اور بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں نیب نے کچھ ’’کارکردگی‘‘ دکھائی ہے تو کئی اربوں خزانے میں بھی شامل ہوئے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نظام میں سقم بھی ہے اور یہ ’’اشرافیہ‘‘ کو عام شہری کی نسبت زیادہ تحفظ دیتا ہے۔ یہی ہماری بربادی اور تباہی کا سبب ہے۔ نیب کے قوانین کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ''Say No to corruption'' کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو دوسری طرف ’’پلی بارگین‘‘ موجود ہے۔ ایک طرف کرپشن سے منع کیا جا رہاہے، ساتھ ہی کہا جا رہا ہے کہ اگر کرپشن کرنا چاہو تو کرو مگرکچھ واپس کرو اور کچھ رکھ لو‘‘ اور آپ کو کوئی سزا بھی نہیں ہو گی۔ ’’پلی بارگین‘‘ تو سراسر کرپشن کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسے آناً فاناً ختم کیا جانا چاہئے۔ اہم بات یہ کہ قاتل کے ریمانڈ کے لیے 14 دن ہیں اور نیب میں 90 روز کا ریمانڈ؟ یہ تو غیر انسانی اور غیر اخلاقی طریقہ ہے بھئی اگر کوئی بھی ادارہ تفتیش کرنا چاہے تو دو دن ہی کافی ہوتے ہیں۔ تفتیش کرنے کی نیت ہی نہ ہو تو 90 روز کیا 180 دن سرکاری مہمان بنا کر رکھ لیں۔ آج کل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جب ملزم سے کئی کلو سونا اور نقدی وغیرہ سرِعام پکڑی جاتی ہے پھر نیب کی تفتیش کے بعد جب وہ باہر آتاہے تو ''Victory'' کے نشان کے ساتھ خوشگوار موڈ میں ہوتا ہے۔ اندر کھاتے کیا مُک مُکا ہوتے ہیں، یہ تو ملزم اور تفتیشی ادارے ہی جانتے ہیں۔ یہ صرف ’’اشرافیہ‘‘ کے لیے ہے۔ عام شہری کی تفتیش کا طریقہ الگ ہوتا ہے اسے کپڑے اُتروا کر مار مار کر ادھ موا بلکہ بعض اوقات تو مار ہی دیا جاتا ہے۔ پولیس میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب بڑے سے بڑے ملزم کے ساتھ مک مکا ہو جاتا ہے تو ضمنیوں میں ہی ایسا کچھ رکھا جاتا ہے کہ اس کی ضمانت لینے پر عدالت مجبور ہوتی ہے۔ قانونی کارروائی کے لیے ریمانڈ بھی لے لیا جاتا ہے۔ جب تک کسی پر الزام ہو اُسے عہدے سے بالکل علیحدہ ہونا چاہئے۔ یہ کونسا طریقہ ہے کہ کروڑوں کے الزامات بھی ہیں ساتھ ہی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین شب کے حصول کی جدوجہد ہو رہی ہے ایک صوبائی اسمبلی کے سپیکر اربوں کے الزامات کے ساتھ عہدہ بھی سنبھالے بیٹھے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ کرپٹ مافیا ریاست سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ نظام عدل میں بے شمار سقم ہیں۔ ایک چیک کیش نہ ہو تو چیک دینے والے کی تین سال ضمانت نہیں ہو گی یہ قانون ہے ، دوسری طرف اربوں کاغبن کیا ہو، دو سال تفتیش بھی ہو اور جب سزا ہو تو ساتھ ہی ضمانت بھی ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ’’اشرافیہ‘‘ کے لیے ہے۔ بخدا عام غریب آدمی کا ہائیکورٹ میں کیس لگنے کی کئی کئی ماہ تک تاریخ ہی نہیں ملتی۔ دوسری طرف ’’اشرافیہ‘‘ صبح ہائیکورٹ سے رجوع کرے تو اُن کی درخواست اسی دن سماعت کے لیے منظور ہوجاتی ہے۔ انصاف میں تاخیر کا یہ عالم ہے کہ ایک وہ جب بھرتی ہوتے ہیں تو ایک کیس اُن کے سامنے آتا ہے۔ جج صاحب 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جاتے ہیں وہ مقدمہ ابھی تک زیر التوا ہوتا ہے، فیصلہ نہیں ۔ عدلیہ کو فیصلوں کے لیے مقررہ وقت کا پابند بنانا ہو گا ، ورنہ عام شہریوں کے ساتھ تومذاق ہوتا رہے گا۔ بات ہو رہی تھی کرپشن کی، ایک تو پلی بارگین کو فوراً ختم ہونا چاہئے ، دوسرا یہ کہ کرپشن کی سزا سخت سے سخت ہونی چاہئے۔ ایسے پیار سے 90 روز سرکاری مہمان بنائے رکھنے سے مال کون واپس کرے گا؟ چین میں کرپشن کی سزا ’’موت‘‘ ہے ویسے تو آپ چین کو رول ماڈل سمجھتے ہیں تو آپ بھی کرپشن کے خاتمے کے لیے یہی سزا تجویز کر لیجئے۔ ورنہ کرپشن رُکنے والی نہیں ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، عام آدمی کو بنیادی حقوق کا نہ ملنا یہ صرف کرپشن کا باعث ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومت کو سخت سے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ عدالتوں کو بھی میرٹ پر سخت اور عدل پرمبنی فیصلے دینا ہوں گے۔ اب بارسوخ لوگ مہینوں عبوری ضمانت پر رہتے ہیں۔ کیا کسی عام شہری کو بھی ایسا ریلیف ملتا ہے؟ اگر اربوں کے الزامات والوں کی فوراً ضمانت ہو جاتی ہے تو جیلوں میں سوائے 302 کے مجرموں کے باقی قیدی بھی تو ضمانت کے حقدار ہوں گے۔ جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے ۔ یہ پورے ملک کے ہر ادارہ میں سرایت کر چکی ہے۔ اس کے انسداد کے لیے خامیوں سے پاک نظام وضع کرنا ہو گا۔ آئندہ آنے والی نسلوں کو ہمیں کرپشن سے پاک صاف معاشرہ دینا ہو گا ورنہ یہ مرض بڑھتا ہی چلا جائے گا۔