وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ دِنوں ٹوئٹ پیغام میں نو جوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ لاک ڈائون کے فرصت کے لمحات کو غنیمت جان کر عرب نژاد امریکی پروفیسر اور مصنف فراس الخطیب کی کتاب LOST ISLAMIC HISTORYپڑھ ڈالیں۔وزیرِ اعظم کا یہ ٹوئٹ بہت سی جہات رکھتا ہے۔ سب سے پہلی جہت تو یہ ہے ، کہ اس سے پتہ چلتا ہے، کہ وزیرِاعظم عمران کو مطالعہ سے گہرا شغف ہے ۔اور وہ اپنے نوجوانوں کو بے کار مِشغلوں سے ہٹا کر ایک ایسی راہ پر چلانا چاہتے ہیں۔ جس سے اُن کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔ ذہنی صلاحیتیں ہی انسان کو سلامت روی اور راست فکر ی کی صفات سے متصف کرتی ہیں۔اُن کے ٹوئٹ پیغام سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے۔کہ اُن کے ذوق مطالعہ کا معیار کیا ہے، اور وہ مطالعہ کوبے حد اہمیت دیتے ہیں اور ا س کے لئے تاریخ ہو یا سیاست اعلیٰ پائے کی کتب کا انتخاب کرتے ہیں۔ا ُن کے خیال میں فارسی کے ایک محاورے کے مطابق ، خالی ذہن پر شیطان قبضہ کر لیتا ہے ، جب کرنے کو کچھ نہ ہو ، تو شرانگیزی ہی سوجھتی ہے۔
لاک ڈائون کی پیدا کردہ فرصت کا یہ مثبت پہلو ہے کہ اُس نے ہمیں بے پناہ فرصت فراہم کر دی ہے وگرنہ فرصت کے محض چند لمحات کو ترستے رہتے تھے۔ہمارے ایک دوست کتابوں کے بڑے شوقین ہیں۔کوئی کتاب میلہ یا بُک شونہیں چھوڑتے جس میںنہ جاتے ہوں ، صرف’’ ونڈو شاپنگ‘‘ پرہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ کتابیں خرید خرید کر گھر بھر دیا ہے ۔لیکن پڑھنے کے لئے ’’ فرصت ‘‘ کے انتظارمیں تھے۔ اُن کی گھر سے باہر کی مشغولیات کو دیکھتے ہوئے، اُمید نہیں تھی کہ کبھی اُن کی یہ حسرت بھی پوری ہو سکے گی۔ مگر اب لاک ڈائون نے اُنہیں فرصت دی ہے تو مطالعہ کی منتظر کتابوں کی پذیرائی ہو نے لگی ہے۔ اس باب میں وہ اکیلے ہی نہیں بلکہ اُن کے کئی ’’ہم سفر ‘‘ ہیں۔ اگر اب بھی ہمارے یہ دوست فرصت کے ان لمحات کیا بلکہ شب و روز کو غنیمت نہیں جانیں گے، تو بہت بڑی بد قسمتی ہو گی۔فارسی کے ممتاز شاعر حافظ شیرازی کے ایک مشہور شعر کا مفہوم یہ ہے ، کہ میری زندگی کی حسین ترین خواہش ہے ، ’’ کہ ندی کا کنارہ ہو ، سبزہ ہو، کنج عافیت ہو ، کتاب اور میں ہو ں ‘‘
دُنیا کی زندہ زبانوں میں ، تصنیف و تالیف بڑا نفع بخش پیشہ ہے ۔ہیری پاٹر کو دیکھ لیجئے‘ مصنفہ نے جب سیریز کی پہلی کتاب لکھی تھی، تو لگ بھگ کنگال تھی، مگر سیریز کے اختتام تک ارب پتی بن چُکی تھی، بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں۔چند ایک ناشرین کوچھوڑ کر مصنف کو رائلٹی دینے کا کوئی تصّور نہیں۔ اگر کوئی کتاب چھپوانے کا خواہش مند ہو تو اُسے ناشرکو طباعت کے اخراجات پلے سے نذر کرنا پڑتے ہیںاگر کوئی کتاب قبولیت کی سند پالے توپھر بھی آپ رائلٹی کو ترستے رہیں گے ۔ناشر ایڈیشنوں پر ایڈیشن چھاپتا چلا جا تا ہے ۔ آپ رائلٹی کے لئے رجوع کریں گے تو پبلشرمنہ لٹکا کر کہہ دے گا سر! ابھی تو پہلا ایڈیشن ہی نہیںبِکامیری تو جمع پونجی اسی کتاب کی اشاعت کی نذر ہو گئی ، آپ رائلٹی مانگ رہے ہیں!
نا شروں کی اس لوٹ مار کی وجہ سے کوئی صاحب علم اپنی تحقیق کو اُردو میں چھپوانے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ناشرین کا اب وتیرہ یہ ہے کہ ماضی میں چھپی اچھی کتابیں جو اب آئوٹ آف پرنٹ ہیں ، ڈھونڈ ھ ڈھانڈ اور تلاش کر کے چھاپ کر خوب کمائی کر رہے ہیں۔بھارت میں مختلف صوبوں کی حکومتوں نے اُردو اکیڈیمیاں بنا رکھی ہیں۔اور بعض ادارے بھی پائے کی علمی کتابیں چھاپ رہے ہیں۔مصنفین اور ناشرین کے ’’ جملہ حقوق محفوظ نہ ہونے‘‘ کے قانون کی عدم موجودگی کے باعث ، بھارت کی چھپی یہ کتابیں یہاں علی الا علان چھپ اور بک رہی ہیں۔
پاکستان میں بھی ،سرکار کی سرپرستی میں، علوم و فنون کے نام پر کئی ادارے قائم ہیں ، جنہوں نے ماضی میں فراس الخطیب کی کتاب LOST ISLAMIC HISTORYکے پائے کی کتابیں شائع کی ہیں۔جو اب آئوٹ آف پرنٹ ہیں ۔حکومتوں کی علم سے عدم دلچسپی کے باعث ان اداروں کو حسب ضرورت فنڈز نہ ملے اور کتابوں کا دوسرا ایڈیشن نہ چھپ سکا۔ ان اداروں میں ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور ، مجلس ترقی ادب لاہور اور انجمن ترقی اُردو ہند کی پاکستان میں جانشین ادارے کی کتابیں، مقتدرہ اور نیشنل بُک فائونڈیشن وغیرہ شامل ہیں۔ان اداروں نے روائتی قِصّہ کہانیوں کی بجائے بلند پایہ مصنفین سے ایسی کتابیں لکھوائیں یا نہائت نفیس کتابوں کے ترجمے کرائے اور شائع کئے ، جو روشن خیالی اور وسعتِ فکر کوجِلا دیتی ہیں۔وزیرِ اعظم عمران خا ن جس قسم کی کتابوں کے مطالعہ کا شغف رکھتے ہیں۔ اس نوعیت کی لاتعداد کتابیں ، عشروں سے پہلے پاکستان میں چھپ چُکی ہیں۔اگر اب بھی ان اداروں کو فنڈز دیئے جائیںتو یہ نایا ب کتب نہ نفع نہ نقصان کی بنیاد پر نئی نسل کو فراہم کی جاسکتی ہیں۔یا دوسری زبانوں کی ایسی کتابوں کے ترجمے کرائے اور شائع کئے جائیں ، جو روشن خیالی ، جمہوریت پسندی اور معاشرے میں رواداری کو فروغ دینے کا باعث بن سکتی ہوں۔
عرب ملکوں اور بالخصوص مصر اور کوئت میں حکومتوں نے ایسے ادارے قائم کر رکھے ہیں، کہ دُنیا میں کسی بھی زبان کی معیاری کتاب عربی میں ترجمہ ہو کر چند ہی دنوں میں بازار میں پہنچ جاتی ہے۔پھر قابلِ تحسین امر یہ ہے کہ خریدار کو کتاب پر معقول رعائت دی جاتی ہے ۔لطف یہ ہے کہ ترجمے کے لئے دوسری زبانوں کی کتاب کے انتخاب کا معیار بہت کڑا ہو تا ہے ۔ظاہر ہے کہ عربی میں طباعت سے پہلے ، غیر ملکی مصنفین، ناشرین اور ترجمہ کرنے والوں کو بھی بھاری معاوضہ دینا پڑتا ہے،جوبہ خوشی ادا کیا جاتا ہے ۔ آپ بعض عرب ملکوں کے ناشرین کے ہاں چلے جائیں اعلیٰ پائے کی نہائت خوبصورت عربی کتابوں کا ذخیرہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ یورپی زبان کی کسی بھی بیسٹ سیلر کتاب کا ترجمہ آپ کو نہائت مناسب قیمت پر مل جائے گا۔