چونکہ رباط مراکش کا دارالحکومت ہے اس لیے بادشاہ کا محل بھی اسی شہر میں واقع ہے جسے’’دارالمخزن‘‘کہا جاتا ہے۔اس کا سرکاری نام’’ قصر المشورالسعید ‘‘ہے جس کے معنی ہیں’’محل جائے مسرت‘‘۔یہ 1864ئ میں تعمیر ہوا۔چند بادشاہوں نے اپنے قیام کے لیے رباط کے مضافات میں واقع ایک نسبۃََ چھوٹا اورگوشہ گیر محل’’دارالسلام‘‘ پسند کیاتاکہ وہاںوہ اپنی نجی زندگی پوری آزادی سے بسر کرسکیں۔’’دارالمخزن‘‘عین شہر کے وسط میں واقع ہے۔باہرسے تو ہمیں یہ ایک مسجد یا دارالعلوم جیسا لگا خصوصاً اس کا صدردروازہ ایسا ہی تھا۔چند سیکیورٹی اہل کار سڑک پر موجودتھے اورٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں تھا جس کے معنی تھے کہ بادشاہ سلامت محل کے اندر نہیں۔ یا تو وہ ’’دارالسلام‘‘ میں ہیں یا شہرسے باہر ہیں۔تاہم اُومولود نے بتایا کہ بادشاہ یہاں موجود ہوں پھر بھی شہریوں کی زندگی میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔کوئی سڑک بند نہیں ہوتی۔البتہ سیکیورٹی ذرا زیادہ ہوجاتی ہے۔نجی نوعیت کے بعض اہم واقعات ’’دارالمخزن‘‘میں بھی ہوچکے ہیں مثلاً1929ئ میں شاہ حسن ثانی کی پیدائش اور2002ئ میں شہزادہ محمد ششم اور شہزادی سلمیٰ بنانی کی شادی جس کا عظیم الشان جشن منایا گیا تھا۔تاہم رباط کی اہمیت اورتعظیم کسی
محل کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک مقبرے کی وجہ سے ہے۔یہ مراکش کے باباے قوم،جدوجہدآزادی کے ہیرو اورروحانی پیشوا محمد الخامس(1909ئ تا1961ئ)کا مقبرہ ہے۔یہ1927ئ سے1953ئ تک اس ملک کے سلطان تھے۔اسی سال عین عیدالاضحی کے روز انھیں ان کے خاندان سمیت ملک بدر کرکے فرانس کے ایک صوبے کارسیکا(Corsica)میں بھجوادیا گیا اور ان کی جگہ ان کے چچازاد بھائی کے بیٹے محمد بن عرفہ کو کٹھ پتلی سلطان بنادیا گیا ۔1954ئ میں محمد الخامس کو مڈاغاسکر بھیج دیا گیا۔جب وہ وہاں سے1955ئ میں لوٹے تو انھیں پھر سے سلطان تسلیم کرلیا گیا۔فرانس اور اسپین سے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں مراکش 1956ئ میں آزاد ہوگیا۔ایک گولی نہیں چلی،کوئی تخریب کاری نہ ہوئی۔ہم نے منصف کو بتایاکہ ہمارے قومی رہنما قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اسی طرح بغیر لڑے برطانوی سامراج سے مذاکرات کے ذریعے لگ بھگ ایک سو سال کی غلامی سے آزادی حاصل کرلی تھی۔وہ ایک جمہوریت پسند انسان تھے۔انھوںنے ہمیشہ Ballet(انتخابی پرچی)کوBullet(بندوق کی گولی) پر ترجیح دی۔منصف یہ سن کر بہت متاثر ہوئے۔اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ 1956ئ میں آزادی کے بعد محمد الخامس نے’’بادشاہ‘‘کا لقب اختیار کیا۔وہ ایک ہر دلعزیز حکمران تھے۔ان کا انتقال1961ئ میں ہوا۔ہم نے پوچھا’’قومی سطح پر ان کی برسی منائی جاتی ہے؟‘‘منصف نے جواب دیا’’ہمارے یہاں ایسی کوئی رسم رائج نہیں۔بہرحال،مراکش کے لوگوں کے دلوں میں ان کا جو احترام ہے اس کے اظہار کی خاطر ان کے مزار پر عظیم الشان مسجد اور مقبرہ تعمیر کیئے گئے ہیں۔یہاں مقامی لوگ بھی تواتر سے آتے ہیں اور سیاحوں کا دورہ تو اس جگہ کی زیارت کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا ۔‘‘مقبرہ بہت بڑے قطعۂ اراضی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے صدر دروازے کے دونوں اطراف محافظ بہت خوبصورت یونیفارم میں ملبوس ہاتھ میں جھنڈے لیے گھوڑوں پر بیٹھے تھے۔وہ قعطاًحرکت نہیں کررہے تھے،بالکل مجسمے لگتے تھے۔لوگ ان کے پاس کھڑے ہوکر تصویریں کھنچواتے لیکن وہ نہ کسی کی طرف دیکھتے تھے اور نہ کچھ بولتے تھے۔رمیز نے ایک سے ہاتھ ملانا چاہا تو اس نے گردن کی جنبش سے انکار کردیا۔مقبرے کے گرد بھی مسلح گارڈز پہرہ دے رہے تھے۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ کوئی دفاعی اہمیت کی عمارت ہو۔مقبرے کی دیواروں پر سفید پینٹ تھا جو بزرگی کی علامت تھی اور گنبدہرے رنگ کا تھا جس کی مناسبت مسجد نبوی کے گنبد سے تھی۔مقبرہ بلندی پربناہواتھا۔اس کی سیڑھیوں پر چڑھتے وقت ہمیں یوں محسوس ہوا گویا عبداﷲ شاہ غازیؒ کے مزار پر جارہے ہیں۔اوپرایک کشادہ گیلری میں کھڑے ہوکر ہم نے نیچے ہال میں دیکھا تو وہاں تین قبریں نظر آئیں۔وسط میں بڑی قبر بادشاہ کی تھی اور دو چھوٹی قبریں جو سائڈ میں تھیں وہ ان کے مرحوم بیٹوں شاہ حسن ثانی اورشہزادہ عبداﷲ کی تھیں۔ ہال کے ایک کونے میں ایک قاری صاحب خوش الحانی سے تلاوتِ کلامِ پاک کررہے تھے۔منصف صاحب نے بتایا کہ یہ تلاوت ،دو دوگھنٹوں کی شفٹوں میں،صبح سے شام تک جاری رہتی ہے۔قاری صاحب کی آواز بغیر لائوڈ اسپیکر کے پورے ہال میں گونج رہی تھی اور دل پر اﷲ کی ہیبت وعظمت کی دھاک بٹھا رہی تھی۔ہم نے بھی اوپر کھڑے کھڑے فاتحہ پڑھی اور واپس ہوئے۔اس مقبرے کی تعمیر1971ئ میں مکمل ہوئی تھی۔مزار کے احاطے میں ایک عجائب گھر واقع ہے جس میں مغرب کے قدیم اور جدید آرٹ کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔ہم اس عجائب گھر کے اندر تو نہیں گئے لیکن منصف نے بتایا کہ یہ آزادی کے بعد بنائے جانے والے چودہ عجائب گھروں میں سب سے پہلا ہے اور یہ بین الاقوامی معیار کا ہے۔یہاں دو سو فنکاروں کے فن پارے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں جن میں یورپی سیاح خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔مقبرے کے کمپائونڈ میں گھومتے ہوئے مسجد سے دوسری طرف ہماری نظر ایک قریبی عمارت پر پڑی۔بناوٹ کے لحاظ سے وہ نہ مسجد تھی،نہ لائبریری،نہ رہائش گاہ اور نہ دفتری عمارت۔اپنے جدید اور شوخ طرز تعمیر کے باعث وہ کوئی کلب لگ رہا تھا۔ہم نے منصف سے پوچھا’’مزار کے ساتھ ہی یہ عمارت کاہے کی ہے؟‘‘انھوں نے قدرے جھینپتے اور دانت پیستے ہوئے بتایا’’یہ شہر کاسب
سے بڑا اوپیرا ہائوس اور کیسینو ہے۔یہاں سرِ شام ہر قسم کی خرافات شروع ہوجاتی ہیں جو صبح تک جاری رہتی ہیں۔‘‘ہم تو یہ سن کراور وہ دیکھ کر سناٹے میں آگئے۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں تھا؟دفعتہ ہمیں خیال آیا کہ ہم جنوبی ایشیا کے لوگوں کو تو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے انیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر مرزا غالبؔ کی ایک’’دردمندانہ نصیحت‘‘پر عمل کرتے لیکن مراکش والوں نے یہ کر دکھایا۔مرزا نے کہا تھا ؎
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے
ہم نے اس شعر کا مطلب منصف کو انگریزی میں بتلایا تو ان کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا ۔کہنے لگے’’شاعروں کو جو وہ چاہیں کہنے دو لیکن میں آج یہ پیش گوئی کرتا ہوں کہ ہمارا شہزادہ اس ملک کو لاس اینجلس بنادے گا یعنی ہر طرف،ہر قسم کے اڈے ہوں گے۔‘‘ہم نے اس ملک کے داخلی معاملات پر زیادہ بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور موضوع بدل دیا۔ہم نے پوچھا’’آپ کے ہاں ریلیںچلتی ہیں؟‘‘بولے’’کیوں نہیں،آپ چاہیں تو میں آپ تو مراکشی ریلوے کی تاریخ سے آگاہ کروں؟‘‘ہم نے کہا’’رہنے دیجیے... یہ کہانی پھر سہی۔‘‘مقبرے کے احاطے میںجگہ جگہ نامکمل پلر کھڑے تھے۔منصف نے بتایا کہ یہ مسجد کے توسیعی منصوبے کا حصہ ہیں۔اس مسجد میں جمعہ،عیدین اور تراویح کی نمازیں ہوتی ہیں۔یہاں مسجد بنانے کا خیال سب سے پہلے1195ئمیں بادشاہ یعقوب المنصور کے ذہن میں آیا تھا۔وہ ملک کی سب سے بڑی مسجد یہاں تعمیرکروانا چاہتا تھا مگر زندگی نے مہلت نہ دی۔مقبرے کی زیارت سے واپسی پر راستے میںہم نے وزارتِ مذہبی امور کی خوبصورت عمارت دیکھی۔آگے کچھ فاصلے پر’’ادارہ دفاع‘‘کی عمارت تھی۔منصف صاحب مقبرے کا دورہ کراکے رخصت ہوچکے تھے۔اُومولود نے بتایا کہ مراکش میں 1971ئسے دفاع کی وزارت نہیں۔دفاعی معاملات کی دیکھ بھال ایک ادارہ کرتا ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ مراکش ایک پُرامن ملک ہے اور اس کا کسی بھی پڑوسی ملک سے کوئی سرحدی یا دوسری نوعیت کا تنازع نہیں ہے۔وزارتِ دفاع اس لیے ختم کردی گئی کہ 1971ئ میں ایک جنرل صاحب پر شبہ تھا کہ وہ بغاوت کرنے والے ہیں چنانچہ وزارتِ دفاع کی حیثیت کو کم کرکے اسے ایک ادارے کا درجہ دے دیا گیا۔راستے میں ایک عمارت پر ابراہیم لنکن اسکوائرلکھا نظر آیا تو اُومولود نے بتایا کہ اس کے ملک کے امریکہ سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔اس نے یہ بھی بتایا کہ 1912ئ میں اہلِ مراکش نے خود فرانس کو مداخلت کی دعوت دی تھی ورنہ یہاں خانہ جنگی شروع ہوجاتی اور یہ ملک کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتاہے۔اُمولود کی بات درست تھی۔قوموں کی زندگی میںکبھی ایسا وقت آتا ہے جب انھیں مصلحتاکڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے۔تاریخِ ہند کے مطابق 1707ئ میںاورنگزیب کی وفات کے بعد جب مسلم سلطنت کمزورپڑنے لگی اور خصوصاً مرہٹوںنے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی تو اُس وقت کے لائقِ احترام عالمِ دین،روحانی پیشوا،مصلح،مفکّر اور سیاسی رہنما شاہ ولی اﷲؒ (1703ئتا1762ئ)نے افغان بادشاہ اور نامور جرنیل احمد شاہ ابدالی کو خط لکھ کر ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی۔