عالمی وباء کورونا سے اب تک تین لاکھ آٹھ ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ جبکہ چھیالیس لاکھ سے زائد افرا دمتاثر ہوچکے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اِس وباء سے نمٹنے کیلئے مختلف طریقے اپنائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں لاک ڈائون کے باعث جہاں کورونا کی روک تھام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہیں غریب طبقہ بھی بُری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ نان شبینہ کے محتاجی نے خودکشی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
وطن عزیز میں 18 مارچ سے ہونے والے لاک ڈائون جسے شروع سے ہی اسمارٹ لاک ڈائون ہی کہہ سکتے ہے کیونکہ سخت لاک ڈائون کی اصطلاح یہاں استعمال نہیں ہوسکتی۔ کراچی سے لے کر خیبر تک اور گلگت بلتستان سے آزاد کشمیر تک لاک ڈائون میں مجرمانہ سُستی برتی گئی ہے۔ عوام کی اکثریت نے اس وباء کو سنجیدہ لینے کی کوشش ہی نہیں کی۔’’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘‘ کے نام سے حکومت نے موٹو تو ریلیز کردیا مگر اِس کے ساتھ یہ بتانا بھول گئے کہ ’’بچنا بھی ہے‘‘۔ ہمارے سادہ لوح عوام سڑکوں، بازاروں میں اِس وباء سے لڑنے نکل پڑے۔ کورونا بھی بڑا چالاک ثابت ہوا ہے۔ عبادت گاہوں میں تو پوری طاقت کے ساتھ اپنا کام دکھاتا ہے مگر بازاروں اور سپر مارٹس میں اِس کی مت ہی ماری جاتی ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومت کی آپس کی چپقلش نے خصوصاً کراچی کے عوام کو ڈھول بنادیا ہے جو دونوں طرف سے بج رہے ہیں۔ وفاق اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کررہا ہے تو سندھ اپنی۔ معیشت زمین بوس ہوچکی ہے۔ کراچی جو پورے ملک کو چلاتا ہے دو مہینے سے بند ہے۔ گزشتہ ہفتے لاک ڈائون میں نرمی کے نام پر مارکیٹیں کھولنے کے حکم جاری کیا گیا وہ بھی خام خیالی ہی رہا۔ تاجروں نے جب دکانیں کھولنا شروع کی تو پھر مختلف حیلے بہانوں سے بند کروادی گئیں۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہٗ کے یوم شہادت پر جو منظر پورے ملک میں نظر آیا وہ صوبائی و وفاقی حکومتوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ایس او پیز کی دھجیاں اُڑادی گئیںاور فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قانون سب کیلئے برابر ہونا چاہیئے۔ اگر مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے سے کورونا پھیلنے کا خدشہ ہے تو جلوسوں کے جم غفیر سے کیا کورونا نہیں پھیلے گا؟وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اَب کورونا کی وباء کو خوف میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ مختلف ذرائع اور افواہوں کاسدباب کیا جائے۔ جس کے مطابق کسی بھی میّت کو کورونا ڈکلیئر کرنے کے لئے لاکھوں روپے دئیے جانے کا انکشاف ہورہا ہے۔ اس معاملے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے نہ تو تصدیق کی گئی نہ ہی تردید۔ خاموشی کا مطلب بھی تصدیق ہی ہوتا ہے۔اس وباء سے نمٹنے کیلئے جہاں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف فرنٹ لائن سپاہی بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح خیراتی ادارے اور اُن کے رضاکار بھی کورونا کے باعث پیدا ہونے والی دوسری وبا ء کے خلاف فرنٹ لائن سپاہی بنے ہوئے ہیں۔ بھوک اور افلاس کے خلاف مختلف خیراتی اداروں اور انجمنوں کے زیراہتمام رضاکار جس تندہی سے مستحقین کی مدد کررہے ہیں۔ اپنے گھروں سے نکل کر بیوی بچوں کو چھوڑکر مستحقین کی مدد کررہے ہیں اُن کو بھی سلام پیش کیا جانا بہت ضروری ہے۔ جب ہم ڈاکٹر ز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی بات کرتے ہیں تو وہیں ان رضاکاروں کی خدمات کو فراموش کرنا ان سے زیادتی کے مترادف ہے۔ جو ’’کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا اور بچنا ہے‘‘ کے مقولے پر عمل پیرا ہیں۔ گھر گھر راشن کی تقسیم، مالی امداد کے باعث ہزاروں لوگوں سے ان کا واسطہ پڑرہا ہے۔ اﷲ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔آمین اگلے ہفتے عید ہے۔ بازاروں کو عید کی شاپنگ کے لئے کھولا گیا ہے۔ جس میں جم غفیر اور ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کا منظر دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ ہمارے عوام کو عید کی فکر ضرور ہے مگر اپنی جانوں کی فکر نہیں ہے۔ افواہوں کا بازار گرم ہے مگر حکومتی سطح پر غیر تسلی بخش اقدامات اس افواہوں کو مزید تقویت بخشنے کا کام دے رہے ہیں۔مراد علی شاہ کے آنسوئوں کی لاج رکھتے ہوئے سندھ حکومت عملی اقدامات کرے۔ اختلافات کو بھلاکر وفاق اور صوبائی حکومتیں یکساں پالیسی بنائیں۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر سے ملک نہیں چلا کرتے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیار تو دید یا گیا ہے مگر کیا صوبوں کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ایسی کسی وباء کا سامنا کرسکیں؟میں کورونا کے باعث اپنے اکثر کالموں میں ایک اور وباء کا ذکر کرتا رہا ہوں جس کا انداز اب شاید سب کو ہورہا ہوگا۔ ’’بھوک‘‘ کی وباء سے نمٹنے کیلئے اب تک صوبائی سطح پر کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیاگیا۔ وفاقی کی جانب سے احساس کیش پروگرام سے لاکھوں گھرانوں کی مددضرور ہوئی ہے۔ مگر صوبائی خودمختاری بھی کسی اقدام کا تقاضہ کرتی ہے۔ وہ تو بھلا ہو کراچی میں خیراتی ادارے اور مخیر حضرات کی کمی نہیں ہے جنہیں اﷲ ربّ العزت نے دولت بھی دی ہے اور دل بھی دیا ہے۔ جو بلارنگ و نسل و مسلک و مذہب مستحقین کی امداد کررہے ہیں۔ کچھ نمائش بھی کررہے ہیں اور کچھ خالص اﷲ کی رضا کیلئے کررہے ہیں۔ مگر اس صورتحال میں مستحقین کی کسی طور پر مدد تو ہورہی ہے۔ مگر سوال پھر وہیں آکر رُک جاتا ہے کہ کیا صوبے خیراتی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دئیے جاتے ہیں یا حکومت کا بھی مخالف جماعت پر تنقید کے سوا کچھ اور کام بھی ہوتا ہے؟
کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے اور بچنا بھی ہے !
May 18, 2020