کبھی میدانوں میں بکھری جنگ دیکھی ہے؟ ماضی کی جنگوں کا حال پڑھا ہے؟سب سے آگے تیر کی طرح سیدھے کھڑے نوجوانوں کے پاس مضبوط زرہ بکتر ہوتے تھے، کیوں؟ اس لئے کہ نیزے کی تیز نوک کا سامنا سب سے پہلے ان کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ پچھلی صفوں میں کھڑے نوجوان یا ان سے پیچھے محفوظ چوکی میں بیٹھے سپاہی اپنے آپ کو زرہ بکتر پہنے بغیر ہی محفوظ تصور کرتے ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ اس اگلی صف میں کھڑے بہادر نوجوانوں کی اس غرور سے نیزوں کا مقابلہ کرتی چھاتی کی وجہ سے جس پر موجود آہنی لباس سے چھن چھن کر آواز کے ساتھ ٹکرا کر واپس جاتے دشمن کے ہتھیاروںکی آواز یہ اعلان عام کرتی ہے کہ ابھی شکست نہیں ہوئی ہے، شاید سفید جھنڈا لہرایا جائے گا۔
اس وقت ہم بھی حالت جنگ میں ہیں اور سب سے اگلی صف میں کھڑے ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف وہ بہادر سپاہی ہیں جن کو زرہ بکتر کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ اس کے بغیر ان کی زخموں سے چور چھاتی کب تک نیزوں کا مقابلہ کرپائے گی۔ ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ ضروری ہے کہ ایک دن یہی ڈاکٹر اپنا سفید کوٹ لہراتے ہوئے اعلان کریں گے کہ جنگ اب ختم ہوچکی ہے، اس وقت صرف ڈاکٹر اور نرسز کرونا مریضوں کے ایسے پروسیجرز یعنی آئیسولیشن اور سی پی آر کے فرائض انجام دے رہے ہیں جن کے دوران کرونا کی منتقلی کاخطرہ کسی اور نوعیت کی ڈیوٹی سے کہیں زیادہ ہے۔ امن اور جیت کا سفید جھنڈا لہرانے میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا ساتھ دیں۔ ’’جدید زرہ بکتر‘‘ کے حوالے سے ان کو ترجیح دیں۔