1950 فروری کی 17 تاریخ تھی کہ امریکی صدر کے یہودی مالیاتی مشیر جیم بی واربرنے اہم نشست میں نیو ورلڈآ رڈراور عالمی حکومت کے قیام کا خواب دیکھا اور اس کے لیے دو راستوں کی تجویز پیش کی کہ اس کا نفاذ بذریعہ جنگ کر نا ہے یا بذریعہ حکمت عملی ( سازشوں) . اب تک اُنہوںنے دونوں طریق بطریق احسن بروئے کار لائے کہ نہ صرف عالمی مالیاتی نظام پر اُنہوں نے اپنا تصرف مضبوط کر لیا ہے بلکہ دنیا بھر کے موثر ذرائع ابلاغ پر بھی انہی کی اجارہ داری اور مغربی ممالک سے لیکر امریکہ اور پھر متعدد اسلامی ممالک میں اُن کی سفارت کاری کارگر،یہودی رائے عامہ کو جس طرح ہموار کر نا چاہتے ہیں وہ کر تے ہیں ۔ اور تیز رفتار سائنسی ترقی اور بے پناہ وسائل کے ساتھ ساتھ دنیا کی موثر اور باخبرترین خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعے ہر وہ کام کر گذرتے ہیں جس کی اُنہیں ضرورت ہو تی ہے۔ موساد کی جاسوسی کا نیٹ ورک امریکہ ، بر طانیہ ، جرمنی ، فرانس جیسی طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ مضبو ط اور موثر ہے اور یہ فری میسن کی جدید شکل۔ فری میسن کی منافقت کا ایک رخ کہ یہ خواتین کی خو د مختاری اور حقوق کی بات کر تے ہیں مگر ان کے اجلاسوں میں کسی خاتون کو بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ 1096 ء میں جب یروشلم پر صلیبیوں کا قبضہ ہو گیا اور اس کے لیے اس تنظیم جو اُس وقت نائٹ ٹیمپلرز کے نام سے قائم تھی نے بھی سر دھڑ کی بازی لگائی اور عیسائی صفوں میں رہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کیا اس طرح کہ خود عیسائیوں کو بھی ان کے حقیقی عزائم کی بھنک تک نہ پڑ سکی۔ عیسائیت کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکا نے اور بعدازاں اپنے مقاصد کی تکمیل میں ٹیمپلرز کے شیطانی دماغ نے ہی کام کیا ۔مگر جب عیسائیوں کو نائٹ ٹیمپلرز کی اصلیت کا علم ہو ا تو اُنہوں نے انہیں بے دریغ قتل کیا اور اُن کے سربراہ کو پھانسی کی سزا دے ڈالی مجبورا انہیں یروشلم سے موجودہ سکاٹ لینڈ کی طرف جان بچا کر نکلنا پڑا ۔ سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے یکجا ہو نے کے بعد یہودیوں کے ان شہ دماغوں نے دولت کے بل بوتے پر اپنی سرگرمیاں پھر سے شروع کر دیں اور جلد ہی وہ وقت آ گیا کہ یہ ان ممالک کو قرضہ دینے کے قابل ہو گئے۔ 1717 میں نائٹ ٹیمپلرز نے اپنے آ پ کو فری میسن کے طور پر متعارف کر ایا ۔ جو یہودی سمندروں میں نکل گئے اُنہوں نے سمندری وسائل کو بھر پور استعمال کیا اور امریکہ کی دریافت تک میں اپنا کردار ادا کیا۔ امریکہ کے قیام کو یقینی بنا نے والے جارج واشنگٹن اور بنجمن فرینکلن دونوں فری میسن تنظیم کے رکن تھے، 19ویں صدیں میں یہ اس قابل ہو چکے تھے کہ امریکہ کو اپنی پالیسیوں کے زیر اثر کر سکیں اُنہوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل میں کوئی روکاوٹ برداشت نہ کر نے کے عزم کا اعادہ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن اور جان ایف کنیڈی کے پر اسرار قتل کی صورت میں کر دیا ۔ ادھربر طانیہ میں فری میسن نے یہودی مملکت کے قیام کی تیاریا ں مکمل کر رکھی تھیں اس وقت کی بڑی طاقت بر طانیہ نے اسرائیل کے قیام کا وعدہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد کر دیا تھا جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں آ باد کر کے پورا کیا گیا۔ مالیاتی نظام کے کنٹرول کا آ غاز اُنہوں نے فیڈرل ریزرو بنک آ ف امریکہ کے قیام کے ساتھ کر دیا بعدا زاں انہوں نے عالمی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بنک جیسے مالیاتی اداروں کی بنیاد رکھی جو دوسرے ممالک کو قرض دیکر نہ صرف سود کی صورت میں اپنا منافع وصول کر تے بلکہ اُن کی سیاسی و معاشی کمزرویوں کو اپنے حق میں استعمال کر کے ان ممالک کے فیصلہ سازوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل میں استعمال کر تے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر اپنا تسلط ان کا دوسرا اور اہم ترین محاذ تھا اور اب تو دنیا بھر کے طاقتور اور بڑے میڈ یا ہاوسسز خواہ وہ امریکی ہوں یا یورپین یا مسلم ممالک کے ادارے ، پس پردہ انکی سوچ کار فرما ۔ فلم انڈسٹری ہو یا فیشن انڈسٹری، بالی وڈ ہو یا ہا لی وڈ ، میڈیا ہاوسسز ہوں یا دیگر نشریاتی ادارہ جات یہ ہر جگہ اور ہر شکل میں موجود ۔ سوال یہ ہے کہ مسلم ممالک جو قدرتی وسائل سے مالا مال مگر دنیا بھر میں ذلت و رسوائی اُن کا مقدر کیوں ، بھر پور وسائل ، افرادی قوت ، رقبہ اور صلا حیت کے باوجود عسکری ، مالیاتی ،تعلیمی اور ثقافتی شعبہ جات میں مقابلہ کی دوڑ میں شامل نہیں ، مگر کیوں ( یہ سب آئندہ)