غزہ میں اسرائیلی بربریت بدستور جاری ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کی بمباری سے گزشتہ روز مزید 42 فلسطینی شہید ہوگئے جس سے بچوں اور خواتین سمیت شہداء کی تعداد 200 ہو گئی۔ ادھر مغربی کنارے میں بیت اللحم سمیت کئی شہروں میں فلسطینیوں نے مظاہرے کئے۔ ان مظاہرین پر بھی اسرائیلی فورسز نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ سیدھی فائرنگ سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی جارحیت کیخلاف دنیا بھر میں مظاہرے کئے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ اسی حوالے سے او آئی سی وزرائے خارجہ کا ورچوئل اجلاس ہوا۔ او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیلی مظالم کیخلاف قرارداد منظور کر لی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے ظالمانہ اور وحشیانہ اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ قابض اسرائیل فلسطینیوں کیخلاف وحشیانہ حملے بند کرے۔ مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل تمام تر خلاف ورزیاں اور فلسطینی مقدس مقامات کی بے حرمتی فوری بند کرے۔ اسرائیل کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ حالات کو مزید بگاڑنے سے باز رہے۔ اسرائیل کے توسیعی منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔ اسرائیل کی نو آبادیاتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سلامتی کونسل فوری طور پر اسرائیلی حملے بند کرائے۔ عالمی برادری اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ القدس الشریف اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت مسلم امہ کیلئے ریڈ لائن کی سی ہے۔ سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو فوری طورپر مداخلت کرتے ہوئے اسرائیلی اقدامات کو روکنا ہوگا۔
اسرائیلی سفاکیت کیخلاف پوری دنیا میں بے چینی کی لہر پائی جاتی ہے۔ اسرائیلی فورسز کے وحشیانہ اقدامات کیخلاف مسلمان ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں تشویش پائی جاتی اور مذمت کی جارہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی غزہ میں بڑھتی ہوئی شہادتوں پر گہری تشویش ظاہر کی اور ان حملوں کو براہ راست جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ انسانیت کا درد رکھنے والے اسرائیلی بھی فلسطینیوں کا خونِ ناحق بہانے پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان نے بھرپور شرکت کی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فلسطینیوں کے حق میں ایک مہم چلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ انکی طرف سے کہا گیا کہ اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی مظلومیت کو ہر فورم پر اٹھانا میرا فرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چینی وزیر خارجہ سے انکی بات ہوچکی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سے بھی بات کرینگے۔ امریکہ روایات کے مطابق اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ جوبائیڈن کے حکومت میں آنے سے فلسطینیوں کو انکے حقوق ملنے کی امید پیدا ہوئی تھی مگر بائیڈن انتظامیہ بھی اسرائیلی اقدامات کو جائز قرار دے رہی ہے۔ اسکی طرف سے اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس نے فلسطین سے متعلق سلامتی کونسل کا اعلامیہ رکوا دیا جس پر چین کی طرف سے احتجاج بھی کیا گیا۔ چینی وزیر خارجہ نے واشنگٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اقوام متحدہ نے ایسے معاملات طے کرنا ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس کی طرف سے لڑائی بند کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے ثالثی ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے رائے دینے کے بجائے اس دیرینہ مسئلہ کے حل کیلئے مطلوبہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ گوئترس جسے لڑائی کہہ رہے ہیں وہ لڑائی یا جنگ نہیں‘ یہ اسرائل کی یکطرفہ جارحیت ہے۔ جارح کے ساتھ اقوام عالم کو اسی طرح نمٹنا چاہیے جو اقوام متحدہ کے قواعد و ضوابط میں طے کیا گیا ہے۔
فلسطین میں انسانیت بلک رہی ہے۔ انسان مر رہے ہیں۔ شیرخوار بچوں تک کو خون میں نہلایا جارہا ہے۔ فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ بے گھر ہونیوالوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غیرملکی میڈیا ہائوسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایسے اقدامات کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کٹہرے میں کس نے لانا ہے؟ یہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ کو اپنا وہ کردار ادا کرنا ہوگا جس کیلئے اسکی تشکیل کی گئی ہے۔
او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کو ہنگامی اجلاس کہا جا رہا ہے۔ اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کا سلسلہ 10 مئی سے شروع ہوا‘ ’’ہنگامی اجلاس‘‘ 16 مئی کو منعقد ہوا اور وہ بھی ورچوئل۔ یہ اجلاس زیادہ سے زیادہ بھی تیسرے روز منعقد ہو سکتا تھا۔ تیسرے روز ہو جاتا تو بھی نتیجہ وہی ہونا تھا جو اب سامنے آیا ہے۔ اس اجلاس میں جذباتی تقریریں تو ہوئی ہیں‘ قراردادیں بھی منظور کی گئیں مگر کسی ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اسرائیل ظالمانہ کارروائیاں بند نہیں کرتا تو کیا کیا جائیگا؟ کچھ بھی طے نہیں کیا گیا۔ گویا نشستند و گفتند و برخاستند کرکے صرف گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کی زحمت کی گئی۔
او آئی سی 57 ممالک کی تنظیم ہے۔ ان میں سے 41 ممالک کی مشترکہ فوج بھی ہے۔ مسلم ممالک میں اختلافات موجود ہیں مگر فلسطین کی حمایت کے حوالے سے سب متفق ہیں۔ آج فلسطینیوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے کل کوئی بھی ملک ان سے دوچار ہو سکتا ہے۔ او آئی سی مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے بہت کچھ کر سکتی ہے۔ آج عالمی فضا فلسطینیوں کے حق میں استوار ہو رہی ہے۔ امریکہ اور اسکے زیراثر ممالک اسرائیل کے ساتھ ضرور کھڑے ہیں‘ دوسری طرف چین اور روس فلسطینیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ مقصد اقوام متحدہ پر دبائو ڈال کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے موقع پر خاموشی اختیار کی گئی اور اپنی طاقت کو مجتمع کرکے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہ کیا گیا تو…ع
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں