پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس‘ الیکشن کمشن کو کارروائی سے نہیں روکا: جسٹس اطہر


اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمشن اور سیاسی جماعتوں سے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرلیا۔ شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے جس میں پٹیشن میں کچھ اضافہ کی استدعا ہے، دوران سماعت الیکشن کمشن کی جانب سے تحریری رپورٹ پیش کی گئی، چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمشن سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کیس آٹھ سال سے کیوں زیر التوا ہے؟، یہ تو ہر سال کا پراسس ہے اسی سال ہی ہونا چاہیے، یہ آٹھ سال سے کیوں چل رہا ہے، کیا قانون کے مطابق ہر سال ہر سیاسی جماعت اپنے آڈٹ اکاؤنٹ جمع کراتی ہے؟، کیا الیکشن کمشن ہر سال سکروٹنی کرتا ہے؟، الیکشن کمشن کے ڈائریکٹر لاء نے بتایاکہ ہم قابل اعتراض اکاؤنٹس کی سکروٹنی کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جلسہ کرے تو اس کے اخراجات کی تفصیل بھی اس نے دینی ہوتی ہے، لگتا ہے الیکشن کمشن ہر سال کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی آڈٹ اکاؤنٹ کی سکروٹنی نہیں کر رہا، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اگر عدالت کہے تو ہم اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرا دیں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ پہلی بات تو یہ ہے یہ کیس آٹھ سال چلنا نہیں چاہیے، اگر کسی سیاسی جماعت کے اکاؤنٹس قابل اعتراض تھے تو صرف ان سے جواب مانگ لیتے، اگر کوئی قابل اعتراض اکاؤنٹس تھے تو سیاسی جماعت کو نوٹس کرتے ثابت ہوجاتا تو ان اکاؤنٹس کو آپ بحق سرکار ضبط کر لیتے، یہ بہت حساس معاملہ ہے اس طرح تو پھر کوئی پارٹی نہیں بچے گی، ایک پارٹی دوسری کے خلاف دوسری اور کے خلاف اس طرح کی پروسیڈنگز چلاتی رہے گی۔ وکیل نے کہاکہ سکروٹنی کمیٹی نے ریکارڈ تک اکبر ایس بابر کو رسائی نہیں دی تھی کہ الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا۔ شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہاکہ اب یہ پراسس شروع ہو گا کہ الیکشن کمیشن اگر سمجھتا ہے کسی اکاؤنٹ میں کچھ مسئلہ ہے تو پارٹی کو شوکاز کرے گا، ایک اکبر ایس بابر کا کیس ہے دوسرا فرخ حبیب نے کیا ہوا ہے۔ ہمارا اعتراض ہے کہ ن لیگ اور دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف کیس آہستہ چل رہا ہے، سکروٹنی کمیٹی دو کیسز میں بنی ہے ایک پی ٹی آئی کے خلاف دوسری ہماری دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے سکروٹنی کمیٹی مخصوص کیسز میں ہی بنتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ جو میں سمجھا ہوں ان کا اعتراض یہ ہے کہ اگر ان کی پٹیشن پر پہلے فیصلہ ہو تو ان کو سیاسی اثرات ہوں گے، یہ کہتے ہیں کہ اگر ساری سیاسی جماعتوں کے کیس کا ایک ہی وقت میں فیصلہ آئے تو اس اثرات بھی یکجا ہوں گے، عدالت نے کہاکہ سکروٹنی کمیٹی نے کہا ہے کہ اکبر ایس بابر کی دی گئی معلومات ویری فائیبل نہیں ہے، وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آچکی ہے یہ پی ٹی آئی کا کیس اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، وکیل الیکشن کمشن نے کہاکہ میری رائے یہ ہے جو کیس اختتام کے قریب ہے اس کا فیصلہ کرتے ہیں اور باقی کیسز کو تیز کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمشن وکیل سے کہاکہ ہم نے الیکشن کمیشن کو پروسیڈنگز سے نہیں روکا، 2014 کا کیس پہلے کرنا ہے 2018 کا بعد میں کرنا ہے، الیکشن کمشن اور سیاسی جماعتیں اس پر جواب جمع کرائیں، سیاسی جماعتوں کے معاملے میں لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے یہاں حقیقت اس سے برعکس ہے، کسی سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگز سے شکایت نہیں ہونی چاہیے، سیاسی جماعتوں کا بہت بڑا رول ہے عدالت یقینی بنائے گی کہ کسی کو کوئی شکایت نہ ہو، عدالت نے سماعت 30 مئی تک کیلئے ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...