ایڑیاں اور آب زمزم

وقت آگے بڑھ رہا ہے اور چھپے اسرار کھلتے  چلے جائیں گے ،باقی  سیاست میں تلخی آ چکی ہے اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جب2028 ء تک  کی ہر طرح سے منصوبہ  بندی  کی  ہو اور اس پر اتنا  اعتماد  ہو کہ اس وقت کے وزراء اور راہنماء بڑی ترنگ کے ساتھ  اپوزیشن کو صبر وتحمل  سے برداشت کرنے کی مشورہ  دیا کرتے  تھے،مگر حقائق بدل گئے  اب جب ایوان کی بجائے سڑک پر شب وروز گذر رہے  ہوں . انٹرویوز  اور تقاریر میں وہ سب کچھ کہا جا رہا ہو جس سے بات سلجھنے کی بجائے مذید پیچیدہ ہو رہی ہو تو سمجھ جانا چاہئے کہ معاملہ خراب ہے .خاک نشیں کو ان سے ہمدردی ہے ،مگر سیاست جو امکانات تلا ش کرنے نام ہے جب صرف الزامات کی گرد ہی گھومنے لگے تو سمجھ جائیں کہ برتن خالی ہے اور بج رہا ہے تو بجنے دیں .کوئی پچ  تیار کرئے اور دوسروں کو مجبور کرئے کہ وہ اس پچ  پر آ کر  کھیلیں  تو  کیا ایسا ممکن ہے ،یہ تو سیدھی سی سیاسی خود کشی ہو گی ،افسوس سے کہنا  پڑتا ہے کہ اس ملک کی سیاست’سکرینز ‘ کی رحم وکرم پر چلی گئی ہے ، صحافی  کہلانے والے یا اس کے بھیس میں کام کرنے والوں نے  اس پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ،ہرصبح کو بے یقنیی پھیلانے سے  اسکا آغاز ہو تا ہے  اور اسے خوب  ہوا دی جاتی ہے اور شام تک مسلہ ملک کا سب سے سنگین معاملہ بن جاتا ہے ،ا س سے عدالت ،سیاست ،معیشت  کچھ بھی محفوظ نہیں رہا ، ایسے پروگرام ہو رہے ہیں جن میں شریک لوگ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے ان کے پاس کسی اجلاس ،کسی بند کمرے کی گفتگو کی ویڈیو موجود ہو یا وہ کسی ڈیوائس سے اپنے کانوں  سے سن رہے   ہوتے ہیں،اس  بدی کا سد باب کرنے کی کوئی صورت بن نہیں پا رہی ہے ،22 کروڑ کی آبادی کے اس ملک کو چند سو  افراد جن کی  تعلیم ،تجربہ ،تربیت   کاکو کسی کو علم نہیں  نے  یرغمال بنا لیا ہے ،کرائے  کے  یہ لوگ اس ملک کی قسمت سے کھیل رہے ہیں ،ڈالر کی قیمت میں ا ضافہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ  یہی افراد  ہیں جو افواہ سازی کر رہے ہیں ،ان کو اگر روکا نہ گیا تو یہ  ملک کو سری  لنکا والی صورت حال سے دوچار کر سکتے ہیں ،اس  مشکل وقت میں کمزوری  دکھانا سخت غلطی ہو گی ،  اعصاب  کو مظبوط بنائیں،باہر سے آ کر کسی نے مسائل کوکو حل نہیں کرنا ہے ،ا ن کا حل  خود ہی کرنا ہو  گا ،ا س وقت ایک حکومت موجود ہے اور کام کر رہی ہے ، اگرچہ مصنوعی بے  یقینی  کی باعث مسائل پہلے سے ذیادہ گھمبیر ہو چکے ہیں ،انرجی کی قلت کے ساتھ اس کی لاگت کاایشو ہے ،زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آ رہی ہے اور تیسرا بڑا مسلہ مہنگائی کا ہے ،ایسا نہیں کہ ہے کہ یہ مسائل آج پیدا ہوئے ،2018کے بعد سے  ان کا تذکرہ ذیادہ شدت سے ہونا شروع ہوا،ان تینوں ایشوز جو سیاست کا محور ہیں خود سیاست کی نذر ہیں ،اپوزیشن میں رہ کر ان  کا خوب استعمال کیا جاتا ہے اور حکومت میں آتے ہی ترجیح بدل جاتی ہے ،آخر کیا وجہ ہے کی عالمی بینک  سے لے کر ایشائی ترقیاتی بینک  اور آئی ایم تک سب نے انرجی سیکٹر کے مسائل پر سیر حاصل رپورٹس تیار کی ہیں اور خودانرجی کے متعلق ادارے بھی ان کے بارے میں اچھی طرح آگاہ ہیں ،مگر اس کے باوجود اصلاح احوال نہیں ہو سکی ہے ،انرجی کی لاگت نے اس ملک کے عوام کو مریض بنا دیا ہے ،بجلی آتی اور چلی جاتی ہے ،گیس  دستیاب نہیں،سی این جی سیکٹر چھ ماہ سے بند پڑاا ہے جس میں کام کرنے والی ورک فورس کی بھوک کا کسی کو احساس نہیں ہے ،ہر سیکٹر  گیس کی کمی کا رونا  رو رہا ہے ،ان دونوں سیکٹر کے سرکلر ڈیٹ نے اس ملک کی معیشت کو دباو کا شکار کیا ہوا ہے،صارف الگ پریشان اور ادارے سرگرداں کہ کوئی راستہ مل جائے،تو کیا کرنا چاہئے ،ظاہر ہے کہ ایک فیصلہ پہلے کر لیا جائے کہ ملک میں انرجی کی قلت رکھنا کوئی حل نہیں ہے ،ابھی چند ماہ پہلے سب کو پتہ تھا کہ پانی کی کمی ہے ،جب گرمی کی وجہ سے  بجلی کی ضرورت بڑھے گی  تو بند کارخانے چلانا پڑیں گے ،مگر ایندھن کا انتظام نہیں کیا ، یہ  معلوم تھا  کہ  زراعت کو کھا د کی ضرورت ہے ،اور اس کی جانب گیس کو رخ موڑنا پڑے گا تو گیس کی درآمد کیوں نہ ہوئی ،یعنی ملک کے اندر گیس کی قلت اور بجلی کی کمی سب سے بڑا ایشو ہے اور اس کے ساتھ تمام مسائل جڑے ہوئے ہیں ،معیشت چلانا ہے تو ایڑیاں رگڑنا بند کی جائیں ، کوئی آب زمزم نہیں نکلنا ،انرجی  کا بندوبست کریں ہر قیمت  پر کیا جائے ،تاکہ معیشت چلے،باقی چیزیں خود بخود درست ہو جائیں گی،انرجی کے اداروں میں اب پرانے زمانے  کی طرح نوکریاں دینے کے طریقہ کار کو ترک کر دینا چاہئے اور ان اداروں کو اب پروفیشنل بنا دینا  چاہئے ، ایک دستاویزہ فلم دیکھی  جو دنیا کی بڑی فیکٹریزکے بارے میں تھی ان میں سے ہر کارخانہ  عالمی  پیداوار میں اپنا حصہ رکھتاہے ،ان میں سے سب سے بڑی فیکٹری  کے  ملازمین  کی کل تعدادد ہزار تھی ،ظاہر ہے کہ یہ دو کے دو ہزار پروفیشنل ہوں گے ،ان کوبہترین  تنخواہ دی جاتی ہو گی،اس طرح کے طریقے   اختیار کر کے  دنیا نے پیداواری   لاگت کو کم کیا ،آج بھی ٹیکنالوجی کا استعمال   کرنے والے ممالک میں پیداواریت اور لاگت کا تناسب بہت متوازن ہے ،اس کے مقابلہ  میں اگر پاکستان سٹیل ملز کے حجم اور ملازمین کی تعداد کو دیکھا جائے تو زمین  وآسمان   کا فرق نظر آئے گا ،یہ وہ فرق ہے جس کی وجہ سے ملک ایک شیطانی چکر میں دھنسا ہوا ہے ،نقصانات بے پناہ آخراجات پورا کرنے کے لئے قرض درقرض  کا سلسلہ جس نے مہنگائی کے مسلے کو پیدا کر رکھا ہے ،آخر کب تک ہم  بس ایشو کی نشاندہی کر کے وقت کا زیاں کرتے رہیں گے اور کب ان  کے  حل کی طرف جائیں گے ۔

ای پیپر دی نیشن