سانحہ اے پی ایس کے بعد دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے

اسلام آباد (چوہدری شاہد اجمل) جنوری 2015ء میں دہشتگردی کے ملزموں کے مقدمات 2 سال کے لیے فوجی عدالت میں چلانے کو قانونی قرار دیا گیا۔ یہ فیصلہ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد لیا گیا تھا جس میں بچوں سمیت144  افراد کی شہادت ہوئی تھی۔ پاکستان کے آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے)1952 میں ترامیم کے ذریعے عام شہریوں تک فوجی دائرہ اختیار لاگو کر دیا گیا ہے۔ فوجی عدالتوں کے فعال ہونے کے دو سال بعد 2017ء میں ان کے اختیارات میں مزید دو سال کی توسیع کردی گئی تھی۔ فوجی عدالتوں کے قیام اور دائرہ اختیار کے حوالے سے کی گئی آئینی ترمیم کے تحت پارلیمنٹ نے پی اے اے میں ترمیم کرتے ہوئے ایک چوتھی کٹیگری بھی شامل کی جس میں سویلینز پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی شق کا اضافہ کیا گیا۔ اس کے دائرہ کار میں وہ ملزم آئیں گے جو ان جرائم میں ملوث ہوں گے۔ ان جرائم میں فوجی افسران یا تنصیبات پر حملے،اغوائے برائے تاوان، دھماکہ خیز مواد ، آتشیں اسلحہ، خودکش جیکٹ یا دیگر مواد رکھنا، ذخیرہ کرنا یا منتقل کرنا۔دہشتگرد حملوں کے لیے گاڑیاں استعمال کرنا یا ڈیزائن کرنا،کسی کو زخمی کرنا یا قتل کرنا، دہشتگرد حملوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ رکھنا، کسی بھی طرح سے ریاست یا عام شہریوں کو خوفزدہ کرنا، پاکستان میں دہشت اور عدم تحفظ پیدا کرنا، ان میں سے کسی بھی اقدام کے پاکستان کے اندر یا باہر ارتکاب کی کوشش، مندرجہ بالا کسی بھی اقدام کے لیے فنڈز فراہم یا وصول کرنا اور ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا شامل ہے ،تاہم ترمیمی بل میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان جرائم میں ملوث افراد کے خلاف صرف وفاقی حکومت کی پیشگی منظوری کے بعد ہی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...