فیصل ادریس ........ قومی افق
بلوچستان میں دہشت گرد اور شرپسند عناصر کے خلاف پاک فوج کی کارروائیاں جاری ہیں جس میں آئے روز کوئی نہ کوئی جوان اپنی جان وطن عزیز کی سلامتی اور عوام کے تحفظ کے لیے قربان کررہا ہے۔ مسلح افواج و دیگر سکیورٹی اداروں کی ان قربانیوں کو بلوچستان کے محب وطن اور غیور عوام نے ہمیشہ سراہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 9 مئی کو شرپسندوں نے فوجی مقامات پر ہنگامہ آرائی کی تو پنجاب ، سندھ اور خیبر پی کے علاوہ بلوچستان کے طول و عرض میں فوجیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے لوگوں نے ریلیاں نکالیں اور فوجی جوانوں کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کیا۔
انہی ایام میں سیکورٹی فورسز کو مسلم باغ میں دہشت گردوں کے ایک گروہ کے خلاف بھی سخت کارروائی میں حصہ لینا پڑا۔ جب مسلح شرپسندوں نے فوجی کمپا¶نڈ میں داخل ہو کر وہاں تین خاندانوں کو یرغمال بنایا اور ایک عمارت پر قبضہ کر لیا۔ یہ دہشت گرد جدید ہتھیاروں سے لیس تھے اور انہوں نے بے پناہ مقامی سویلین کو یرغمال بنایا ہوا تھا جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ مسلح افواج کے جوانوں نے نہایت تندہی سے تین یوم ان دہشت گردوں کا نہایت حکمت عملی سے مقابلہ کیا تاکہ جانی نقصان نہ ہو۔ ابھی ساری کارروائی کی قیادت کوئٹہ کے کور کمانڈر نے خود کی اور اسے کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ دہشت گردوں کا یہ 5 رکنی گروہ اپنے انجام کو پہنچا اور پاک فوج کے 5 جوان اور ایک شہری بھی اس کارروائی میں شہید ہوئے۔ یہ ایک سنگین واقعہ تھا۔ حکومت بلوچستان نے اسی کی شدید مذمت کرتے ہوئے شہید ہونے والوں کے درجات کی بلندی کی دعا کی اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ دریں اثنا ایک اور انتہائی مطلوب دہشت گرد عصمی عرف وفا بھی مارا گیا جو سکیورٹی فورسز اور سول مقامات پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ ان حالات میں جب ایک طرف ہمیں بیرونی اور دوسری طرف اندرونی دہشت گردی کا سامنا ہے جو عناصر مسلح افواج کیخلاف منفی پراپیگنڈہ کر رہے ہیں ان سے نئی نسل کے کئی جوان متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ایک غلط مثال ہے۔ پی ٹی آئی جب خود حکومت میں تھی تو بڑے فخر سے حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کے اعلانات کرتی تھی آج جب وہ حکومت سے باہر ہے اسے فوج میں خرابیاں نظر آنے لگی ہیں اگر ایسا تھا تو پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہ کی جنہیں وہ آج وہ موردالزام ٹھہرا رہی ہے۔ مسلح افواج کیخلاف عمران خان کا یہ بیانیہ زیادہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سوشل میڈیا اور چند میڈیا چینلز پر چلنے والے منفی پراپیگنڈے سے اپنے ملک کی سلامتی کے ضامن ادارے کے خلاف ایسی مہم خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت اپنے رہنما اپنے چیف جسٹس کے خلاف منفی بات برداشت نہیں کرتے تو مسلح افواج کے لاکھوں جوان اپنے سربراہ کیخلاف اس منفی مہم سے کیا ناراض نہ ہوں گے۔ فی الحال و حالات پرامن ہیں مگر کیا ضمانت ہے یہ کل بھی پرامن رہیں۔ بلوچستان جیسے حساس صوبے میں جہاں پہلے ہی دہشت گردی نے قیامت ڈھائی ہوئی ہے مسلح افواج کے خلاف اس منفی مہم کے غلط اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ اس لیے صوبائی ہو یا مرکزی حکومت وہ حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبے میں اس قسم کی منفی سرگرمیوں کی اجازت نہ دے۔ جس کی وجہ سے صوبے میں سیاسی انارکی کا بھوت نئی تباہی مچاتا نظر آئے۔ یہ تو مقام شکر ہے کہ بلوچستان میں پی ٹی آئی کو وہ حمایت حاصل نہیں جو حالات کو خراب کرنے میں معاون ثابت ہومگر منفی پراپیگنڈے کا توڑ تو کرنا ہی پڑے گا۔ یہی صوبائی حکومت اور صوبائی انتظامیہ کی ذہانت کا امتحان ہے۔ صدر عارف علوی ایک معتبر عہدے پر فائز ایک زیرک انسان ہیں اگر آپ ان سے ملیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تدریسی کتابوں اور حاصل کی گئی ڈگریوں کے علاوہ ڈاکٹر عارف علوی ایک نہایت پڑھے لکھے اورمنجھے ہوئے انسان ہیں۔ عارف علوی کی لائن اگر پی ٹی آئی ٹو کر لیتی تو آج شاید انکے مطالبات کی روشنی میں الیکشن ہو چکے ہوتے۔ پاکستان تحریک انصاف میں مفاہمت پسند شخصیت عارف علوی کے علاوہ اور شاید کوئی نہ ہو اگر پرویز خٹک بارے کہا جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ پرویز خٹک بھی عارف علوی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں نہ کہ پُرتشدد سیاست پر .................... ڈاکٹر عارف علوی چاروں صوبوں کے آئینی سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اُن کے حوالے سے کسی سیاسی جماعت یا کسی احتساب ادارے کو نہ ہی کوئی شکایت ہے نہ ہی کوئی اُن کی معیوب بات پر گلہ ہے۔ ملک کے آئینی سربراہ کے عہدے پر فائز ایسی تدبر کی حامل شخصت کو ہی فائز ہونا چاہئے تھا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے بہت سے نازک موڑ پر سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کا کردار ادا کر کے ملک کو درپیش کسی بھی بڑے سانحہ سے بچایا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور تشدد پسند اُن کے ساتھی اگر عارف علوی کو اہمیت دیتے تو ملک آج اس نازک صورتحال سے دوچار نہ ہوتا۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے بار ہا تصادم پر صدر علوی نے اپنی دانشمندی سے دونوں جماعتوں کے ٹکرا¶ کو نہ صرف روکا بلکہ دونوں کے حسب منشا راستہ بھی دیا۔ آج ملک جس المیہ سے گزر رہا ہے اس میں اگر اسٹیبلشمنٹ صدر پر حالات ٹھیک کرنے کی ذمہ داری عائد کرے تو مجھے امید ہے صدر حالات کو بہتری کی سمت لے جائیں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنی پارٹی کے اہم زیرک منجھے ہوئے رکن جن کی خدمات کو ضائع کرنے کی بجائے فائدہ اٹھائیں اور صدر علوی مفاہمت کی سیاست کی رسی تھام لیں اور سانحہ نو مئی پر قوم و ملک سے معافی مانگ لیں تو حالات آج بھی بہتر ہو سکتے ہیں۔
سانحہ 9 مئی پر صدر ڈاکٹر عارف علوی سابق وزیر دفاع پرویز خٹک، سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری شرمندہ ہیں۔ اس شرمندگی کا اظہار وہ میڈیا کے سامنے بھی کر چکے ہیں۔ وہ اپنے ملک و افواج کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کے بیانیے پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ وہ نام ہے جن میں علی زیدی اور بہت سے ناموں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر عمران خان کو سب سے پہلے پاکستان یعنی کہ آصف علی زرداری کی طرز پر ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ عمران خان کا کوئی سیاسی جانی مالی نقصان ایسا نہیں ہوا جو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا ہوا تھا۔ بلاول بھٹو نے اپنے نانا کو ملک کی سالمیت تختہ دار پر لٹکنے کی کہانیاں سن رکھی تھیں جبکہ اپنے معصوم چہرے سے اپنی والدہ کو دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوتے دیکھا۔ عمران خان نے ملکی محبت کو سیاست سے مقدس نہ جانا تو بہت جلد تحریک انصاف میں سینکڑوں کی تعداد میں موجود رہنما ملکی محبت میں تحریک انصاف کو خیر آباد کہنے پر مجبور ہو جائیں گے۔