قومی سلامتی کمیٹی کی -9 مئی کے واقعات پر تشویش اور اہم فیصلے 

May 18, 2023

قومی سلامتی کمیٹی نے ذاتی مفادات اور سیاسی فائدے کے حصول کے لئے جلاﺅ گھیراﺅ اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ فوجی تنصیبات اور عوامی املاک کی حرمت و وقار کی خلاف ورزی قطعی برداشت نہیں کی جائے گی اور -9 مئی کے سانحہ میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدات منعقد ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اس اجلاس میں وفاقی وزراء، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تینوں سروسز چیفس، سلامتی سے متعلق اداروں کے سربراہان اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں سیاسی اختلافات کو محاذ آرائی کے بجائے جمہوری اقدار کے ذریعہ حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں اس امر کا اعادہ کیا گیا کہ ملک میں تشدد اور شرپسندی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ اجلاس کے شرکاءنے پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ مکمل یکجہتی اور حمایت کا اظہار کیا اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ 
قومی سلامتی کمیٹی نے آئین کے مطابق متعلقہ قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ و آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے شرپسندوں، منصوبہ سازوں ، اشتعال پر اکسانے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف مقدمات درج کرنے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے فیصلہ کی تائید کی اور واضح کیا کہ کسی بھی ایجنڈے کے تحت فوجی تنصیبات اور مقامات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، این ایس سی کے اجلاس میں سوشل میڈیا کے قواعد و ضوابط کے سختی سے نفاذ اور قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی گئی تاکہ بیرونی سرپرستی اور داخلی سہولت کاری سے کئے جانے والے پراپیگنڈے کا تدارک کیا جا سکے۔ اجلاس میں عالمی سیاسی کشمکش اور دشمن قوتوں کی عدم استحکام کی پالیسیوں کے باعث بڑھتے ہوئے پیچیدہ جیو سٹریٹجک ماحول میں قومی اتحاد و یگانگت پر زور دیا گیا۔ 
وزیر اعظم شہباز شریف نے شرپسندوں کو ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے باور کرایا کہ -9 مئی کو ملک میں پیش آنے والے واقعات سے پاکستان کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ -9 مئی ایک انتہائی المناک دن تھا جسے ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ دن کروڑوں پاکستانیوں کو غمگین کر گیا اور پوری قوم غصے کی حالت میں ہے۔ آج ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کونسا نظریہ تھا، کونسا شخص تھا اور کونسا جتھہ تھا جس نے پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کو نذر آتش کر دیا۔ چشم فلک نے ایسی صورت حال پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، 
یہ امر واقع ہے کہ ہمارا ازلی مکار دشمن بھارت گزشتہ 75 برسوں میں پاکستان کی سلامتی کے خلاف ان مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہوا جو -9 مئی کو شرپسندوں کے جتھے نے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی عمارات، تنصیبات، شہداءکی یادگار اور ان کے پورٹریٹس کو نذر آتش کرکے اور ملک کے دفاع و سلامتی کے ضامن ادارے کو بٹہ لگا کر پایہ¿ تکمیل کو پہنچائے ۔ بلاشبہ یہ ہماری تاریخ کا المناک ترین واقعہ ہے جس کے بارے میں وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ کہنا بجا ہے کہ 65ءکی جنگ ہو، ضربِ عذب ہو، امن و امان قائم کرنے کا منصوبہ ہو، آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ ہو یا ملک کی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لئے دیوانہ وار جام شہادت نوش کرنے کا تفاخرانہ مرحلہ ہو، افواج پاکستان ہمیشہ سرخرو رہیں اور اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر ملک کی کروڑوں، ماﺅں ، بچوں اور بزرگوں کو سکون فراہم کیا۔ انتشار، افراتفری اور ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے والی پی ٹی آئی کی سیاست نے اپنی صفوں میں موجود شرپسندوں کو اتنا حوصلہ دیا کہ وہ ملک پر جانیں قربان کرنے والے سپوتوں کی یادگار ، ان کی قبروں اور ان کی تصویروں کی بھی بے حرمتی کرتے رہے جبکہ ملک بھر میں بلوے کر کے ان شرپسندوں نے پرامن شہریوں کا جینا ہی دوبھر نہیں کیا، اقوام عالم میں پاکستان کی رسوائی کا بھی اہتمام کیا۔ ان شرپسندوں اور بلوائیوں نے لاہور کے جناح ہاﺅس، جی ایچ کیو راولپنڈی، میانوالی کے ائربیس، فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر، ایف سی سکول اور پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کا حشر نشر کرتے ہوئے انہیں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا۔ یقینا کوئی محبِ وطن ملک اور اس کے اداروں کے خلاف ایسی مکروہ حرکت اور تخریب کاری کا سوچ بھی نہیں سکتا اس لئے -9 مئی 2023ءکا دن قوم کے لئے سیاہ د ن کے طور پر بھی اجاگر ہوا ہے۔ 
قوم نے -16 دسمبر 1971ءکو بھارت کی عسکری تنظیم مکتی باہنی کی سازش اور سہولت کاری سے اس وطن عزیز کو سانحہ¿ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں دولخت ہوتے دیکھا جو قوم کے لئے سیاہ ترین دن تھا۔ یہ سانحہ تو پاکستان نے ازلی مکار دشمن بھارت کی گھناﺅنی سازش کے تحت رونما ہوا تھا اور اس روز اٹھائی گئی ہزیمت کے زخم آج بھی ہرے ہیں مگر -9 مئی کا سانحہ تو بادی النظر میں اپنوں ہی کے ہاتھوں رونما ہوا ہے جنہوں نے سیاسی اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی کے قالب میں ڈھال کر قومی ریاستی اداروں پر چڑھائی کرنا شروع کی اور عمران خان نے عدم اعتماد کی قانونی تحریک کے ذریعے اپنی اقتدار سے محرومی کا غصہ اپنے سیاسی مخالفین کے علاوہ ادارہ جاتی قیادتوں پر عامیانہ اور بے سروپا الزام تراشی کے ذریعے نکالنے کا راستہ اختیار کیا۔ ان کے اس سیاسی طرزعمل سے جہاں ملک میں سسٹم کو کمزور کرنے کے راستے نکلے وہیں تاک میں بیٹھے ہمارے دشمن کو بھی ملک کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملا۔ اس طرح انتشار اور تخریب کاری کو فروغ دینے والی اس سیاست نے دشمن کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے سہولت کاری والی کمک فراہم کی۔ 
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ اس انتشاری سیاست کے قائد عمران خان آج بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں جنہوں نے نہ صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاءبندیال کے کہنے کے باوجود -9 مئی کے المناک واقعات کی مذمت نہیں کی بلکہ وہ ان واقعات سے خود کو اور اپنی پارٹی کو بری الذمہ بھی قرار دے رہے ہیں اور سکیورٹی اداروں پر الزامات کی بوچھاڑ بھی کر رہے ہیں۔ یقینا کوئی بھی ملک ایسی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا بالخصوص پاکستان جیسا ملک جسے پہلے ہی اپنے دیرینہ دشمن بھارت کی گھناﺅنی سازشوں کا سامنا ہو۔ 
اس تناظر میں ہی حکومت، حکومتی اتحادیوں، سیاسی ، دینی اور عسکری قیادتوں نے ایک متحد قوم کے طور پر بیک زبان ہو کر -9 مئی کے سانحہ کی مذمت کی ہے اور تشدد، توڑ پھوڑ، گھیراﺅ جلاﺅ اور تخریب کاری میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور کیفر کردار کو پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور تمام شرپسندوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر کے کارروائی عمل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر کوئی سیاسی قائد اور اس کی جماعت ملک کی سلامتی اور اس کے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہو تو یہ کسی دشمن ملک کا ہی ایجنڈہ ہو سکتا ہے جس کے لئے ملک میں موجود عناصر کو دشمن کی سہولت کاری کا کام کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عمران خان نے بطور سیاسی لیڈر خود کو تسلیم کرانا ہے تو انہیں انتشار، عدم استحکام اور تخریب کاری والی سیاست سے بہرصورت رجوع کرنا ہو گا۔ ان کی سیاست ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات سے ہم آہنگ ہو گی تو ہی قومی سیاست میں ان کی قبولیت کا راستہ نکل سکتا ہے، بصورت دیگر ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔ 

مزیدخبریں