امیر محمد خان
بہ حیثیت وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ میں سابق صدر ٹرمپ سے ملاقات کی اور پاکستان آمد پر انکی جماعت نے جس طرح ڈھول تماشہ کرکے ہوائی اڈے پر انکا استقبال کیا ایسا لگا کہ پور ا امریکہ فتح کرلیا ہے ، کہا گیا کہ امریکہ کشمیر کے مسئلے ثالثی کا کردار ادا کرے گا ، ٹرمپ جو امریکہ میں ایک مزاحیہ کردار تصور کیے جاتے ہیں ، ٹرمپ اور عمران خان کے ملاقات کے بعد آج سے 1746 دن قبل بھارت نے آرٹیکل 370 منسوخ کرکے اپنے طور پر کشمیر پر دھونس اوردھاندلی سے قبضہ کرلیا ٹرمپ اور عمران ملاقات میں کیا ہوا ہوگا اسکا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے جب عمران خان سیاست میں آمد کے پر تول رہے تھے جدہ میں ایک ہوٹل میں ملاقات میں ہم نے استفسار کیا تھا اگر وہ سیاست میٰں آرہے ہیں انکا کشمیر پر کیا موقف ہوگا انہوں نے نہائت اکتائے لہجے میں کہا تھا ”چھوڑیں کشمیر کو پاکستان کی بات کریں “ صاحبو یہ ہمارے لیڈاران کی سوچ رہی ہے ، مقبوضہ کشمیر پر ہماری اندرونی صورتحال جہاں ہمارے کرتا دھرتا ”نوٹ “کمانے پر متوجہ ہوں وہا ں کی وزارت خارجہ بھی تمام تر کوشش کے باوجود کشمیر پر کچھ نہ کرسکی اور مودی سرکار نے بھارت میں مروجہ جمہوری طریقے سے ایکٹ آف پارلیمان کے ذریعے کشمیر کی حیثیت کو ختم کرکے بھارتی یونین میں ضم کرلیا۔مودی سرکار یا اس سے قبل کے بھارتی حکمران اپنے ہی لیڈران نہرو اور دیگر کی اقوام متحدہ میں پیش کی گئی قراردادوں کی دھجیاں اڑا دیں۔ مسلمان دشمن حکومتیں چاہے وہ اسرائیل ہوں یا بھارت دونوں ہی ایک سمت جارہے ہیں اسرائیل نے پورے پورے یروشلم کو اسرائیل میں ضم کرلیا ہے۔ بھارتی آبادی جہاں انکی آبادی کیلئے بیت الخلائ بھی نہیں ہیں اسکے وزیر اعظم اپنی انتخابی مہم میں پاکستان کی معاشی حالت اورکمزوری کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں اگر پاکستان اتنا ہی کمزور ہے تو یہ چائے والا وزیر اعظم ہر جلسے میں پاکستان کا کیوں ذکر کرتے ہیں یہ ہوتا ہے انسان کا خوف جو مودی کی تقاریر میں پاکستان کے متعلق نظر آتا ہے۔ بہرحال ہمیں اپنا ”اندر“سنوارنا ضروری ہے۔ جس ہم نہیں کررہے پا رہے گزشتہ دنوں ہمارے زیر انتظام کشمیر میں ہوا ہے وہ الارمنگ ہے اسکی وجہ بھارت کی وہ سرمایہ کاری ہے جو ہر جگہ پاکستان دشمنی میں خرچ کررہا ہے مہنگائی کے خلاف، بجلی کے نرخ ، بجلی ہماری ہے جیسے نعروں کی بنیاد پر آزاد کشمیر میں ہلا گلا ہوا ، مگر کوئی توجہ دیگا کہ ان مظاہروں میں بے شمار گاڑیا ں استعمال ہوئیں اس پیٹرول کی رقم کہا ں سے آئی ؟؟؟ آزاد کشمیر میں JKLF نامی تنظیم کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ ہم نہ ہی پاکستان اور نہ ہی بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیںمگر بہ حیثیت پاکستانی ہم تو اپنے قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں انکا کہنا تھا کہ ”کشمیر پاکستان کا ہے “ وہ دوست جو دنوںکے ساتھ ملنا نہیں چاہتے انکی پہلی توجہ مقبوضہ کشمیر بھارتی تسلط اور ظلم کی طرف ہونا چاہئے الحمداللہ آزاد کشمیر میں پاکستان نے تمام سہولیتیں دی ہیں اور وہ اسے پاکستان ہی سمجھتے ہیں اور محبت اور پیارسے رہتے ہیں آزادکشمیر کے عوام بھی پاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں گزشتہ دنوں ہونے والے آزاد کشمیر کے واقعات پر بھارت نے خوب بغلیں بجائی ہیں جھوٹی سچی خبریں چلائی ہیں مگر پاکستان کے وزیر اعظم شہبا ز شریف کے بروقت اقدام سے بھارت کی خوشیاں ڈھیر ہوگئیں آزاد کشمیر میں گزشتہ دنوں کے واقعات اچانک ہی نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ آگ ایک عرصے سے سلگ رہی ہے جس اسکا اظہار گزشتہ دو تین دنوں میں ہوا یہ ہمارے فیصلہ سازوں کی غلطی ہے وہ عوامی مسائل کے تدارک پر کام نہیں کررہے اور وہاں بھی آنے والی حکومتیں صرف اور صرف اپنی کرسی سے دلچسپی رکھتے ہیں حالیہ مظاہروں میں کہاگیا کہ بجلی ہم پیدا کررہے ہیں اور ہمیں مہنگی مل رہی ہے بجلی ہمارے فیصلہ سازوں کی کمزوری سے ے تمام پاکستان کو مہنگی مل رہی مگر اس وقت یہ کہنا کہ ”بجلی ہم پیدا کررہے ہیں “ اگر اسطرح کی بات سبی ( بلوچستان ) کے عوام کہنا شروع کردیں سوئی گیس ہمارے ہاں پیدا ہورہی ہے اور ہمیں گیس نہیں مل رہی ، وہ تو بھلاہو وہاں کے سرداروں کا جو پاکستان کے قیام کے بعد سے وہ مرکز سے مال پکڑ کر ایسی کسی تحریک کو ہوا نہیں دے رہے یہ بھی ہمارے فیصلہ سازوں کی غلطی ہے پاکستانی کی معدنیات پر سب کا حق ہے علاقے کے سرداروں کوپیسہ دیکر کام چلانا یہ کہاں کی دانائی ہے ؟؟ آزادکشمیر میں مسائل بہت چھوٹے چھوٹے ہیں جن پر وہاں قائم ہونے والی حکومتیں توجہ نہیں دیتیں، پاسپورٹ کے مسائل، صحت ، طبی سہولیات کا فقدان، وہاں نادرا لاکھوں افرادکو پاسپورٹ جاری نہیں کررپارہی ، کروڑوں روپے فیسوں کی مد میں لئے گئے ہیں ، کوریئر فیس بھی وصول ہوئی ہے مگر پاسپورٹ ندارد ، یہاں تک کہ گاڑیوں کی نمبر پلیٹس بھی وہاں ایجنٹوں کی مرہون منت ہیں، آزاد کشمیر بھی ایک نہائت حساس ترین علاقہ ہے وہاں پر تشدد واقعات اور تحریک لحمہ فکریہ ہی نہیں پریشان کن ہیں دشمن تو ہماری طرف تاک لگائے بیٹھا ہے وہ پروپگنڈے میں ہم سے بہت آگے ہے اگر وہ وہاں کے واقعات کو لیکر عالمی فورمز پرچلاگیا تو وہ اندھے بہرے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر کچھ نہیں بولتے جو فلسطین پر کچھ کرنے سے قاصر ہیں وہ آزاد کشمیر کے واقعات پر واویلا مچاسکتیں ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نےاپنے x اکاونٹ پر بجا طور پر کہا کہ ” بدقسمتی سے افراتفری اور اختلاف رائے کے صورتحال میں ہمیشہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فوری سیاسی پوائنٹ سکورنگ شروع کر دیتے ہیں“۔ انھوں نے وزیر اعظم آزاد کشمیر سے بھی بات کی اور خطے میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے تمام عہدیداروں کو ہدایت کی کہ وہ ایکشن کمیٹی کے رہنما?ں کے ساتھ مل کر پرامن حل تلاش کریں۔بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر ایک مخصوص طبقے نے اس احتجاج کی شدت کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ احتجاج بنیادی طور پر ریاست کے خلاف ہورہا ہے اور اسے زبردست عوامی تائید حاصل ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس تاثر کو ہوا دینے والے عناصر وہی ہیں جنھوں نے 9 مئی کے واقعات کے لیے بھی سوشل میڈیا کا منفی استعمال کر کے ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اگر 9 مئی کے واقعات کی بنیاد پر قائم کیے گئے مقدمات کے فیصلے کر کے ان میں ملوث افراد کو سزا دیدی جاتی تو نئی پیدا ہونے والی صورتحال اتنی نقصان دہ نہ ہوتی جتنی کہ یہ بن گئی، اور اس صورتحال سے بھارت نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اسی لیے سوشل میڈیا پر جن اکا?نٹس کے ذریعے بڑی تعداد میں اس واقعے کو منفی رنگ دے کر پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف پوسٹیں کی گئیں ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح بھارت سے ہی ہے۔ لیکن ہمارے اپنے ملک میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دشمن کے آلہ کار بن رہے ہیں، لہٰذا اس بات کی چھان بین ضرور ہونی چاہیے کہ پاکستان میں ایسے کون سے عناصر موجود ہیں جو اپنے ملک کو نقصان اور دشمن کو فائدہ پہنچانے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مہنگائی کے خلاف مظاہرے بھی جائز تھے اور یہ مسئلہ صرف کشمیری عوام کا نہیں بلکہ IMFکے بوجھ تلے دبے پورے پاکستان کا ہے
اسکے تدارک کیلئے کسی احتجاجی سلسلے کے شروع ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ حل کی طرف توجہ دینا ضروری ہے